گائوں کے مولوی صاحب نے کسی چور کو مسجد میں پناہ دے دی‘ صبح ہوئی تو چور مولوی صاحب کے سامان کے ساتھ ساتھ مسجد کی ٹوٹیاں‘ پنکھے‘ لائوڈ اسپیکر اور جائے نماز بھی لے گیا‘ مولوی صاحب نے اس کے بعد چور کو بددعائیں دینا شروع کر دیں‘ یہ آج تک اسے برا بھلا کہہ رہے ہیں لیکن سوال یہ ہے قصور کس کا تھا؟ چور کا یا مولوی صاحب کا! آپ بھی یقینا چور کو برا بھلا کہیں گے لیکن اصل ذمہ دار مولوی صاحب تھے‘ یہ جانتے تھے یہ جانا پہچانا چور ہے‘ یہ چوری کے جرم میں جیل بھی بھگت چکا ہے لیکن یہ اس کے باوجود اس پر اعتبار کربیٹھے لہٰذا غلطی مولوی صاحب کی تھی‘ یہ بھول گئے انسان کی سرشت اور پس منظر نہیں بدلتا‘ افغان بھی صدیوں سے ایسے ہیں‘
یہ آج کے احسان فراموش نہیں ہیں‘ یہ ہزاروں سال سے تاریخ کی گزر گاہ پر بیٹھے ہیں‘ ماضی میں جب بھی اگر کوئی ہندوستان جاتا تھا تو اسے افغانوں کی سرزمین سے گزر کر جانا پڑتا تھا اور اگر کبھی کوئی ہندوستانی دوتہائی دنیا سے ملنا چاہتا تھا تو اسے بھی افغانستان کے دروازے پر دستک دینا پڑتی تھی‘ افغان خود بھی وارئیر تھے‘ تاریخ کے ہر دور میں ان کا کوئی نہ کوئی میدان جنگ رہا‘ یہ ایران کے علاقوں پر حملے کرتے تھے‘ ازبکوں کا مقابلہ کرتے تھے یا پھر ہندوستان میں داخل ہو کر تباہی مچا دیتے تھے‘ ہندوستان ان کے لیے آسان ترین شکار ہوتا تھا‘ یہ درہ خیبر پار کرتے تھے اورپانی پت تک انہیں کسی مزاحمت کا سامنا نہیں کرنا پڑتا تھا‘ یہ اگر پانی پت کی جنگ جیت جاتے تھے تو دلی کی اینٹ سے اینٹ بجا کر واپس چلے جاتے تھے اور اگر جنگ ہار جاتے تو بھی یہ ٹھیک ٹھاک مال سمیٹ کر واپس لوٹ جاتے تھے اور سال دو سال بعد زیادہ طاقت سے حملہ آور ہو جاتے تھے‘ اس زمانے میں مون سون ہندوستان کا سب سے بڑا ڈیفنس تھا‘ برسات میں ہندوستان کے تمام دریا بھر جاتے تھے اور زمینیں دلدلی ہو جاتی تھی چناں چہ فوجوں کی موومنٹ رک جاتی تھی‘ دوسرا برسات میں ہندوستان میں ملیریا اور اسہال کی وبائیں پھوٹ پڑتی تھی جس سے دھڑا دھڑ فوجی مرنے لگتے‘ امیر تیمور نے 1398ء میں ہندوستان پر حملہ کیا‘ اس کی آدھی فوج دلی کے سامنے اسہال کی وجہ سے مر گئی‘ اسے ہندوستان سے بھاگنا پڑ گیا اور اس کے بعد اس نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا‘ افغان پہاڑی علاقے کے رہنے والے ہیں‘ ان سے ہندوستان کی گرمی برداشت نہیں ہوتی تھی چناں چہ یہ بہار کے موسم میں آتے تھے‘ جی بھر کر لوٹتے تھے اوربرسات سے پہلے اٹک کا پل پار کر جاتے تھے۔
میں آپ کو یہاں یہ بھی بتاتا چلوں افغان ہندوستان اور ہندو سے سخت نفرت کرتے تھے‘ آج بھی افغانی زبان میں’’ہندو کا بچہ‘‘ ٹھیک ٹھاک گالی ہے‘ یہ جب کسی سے ناراض ہوتے ہیں تو اسے ’’ہندو کا بچہ‘‘ یا ہندو کہہ دیتے ہیں‘ یہ خود کو بہادر اور ایمان دار ثابت کرنے کے لیے یہ بھی کہتے ہیں ’’میں کوئی ہندو کا بچہ ہوں‘‘ لہٰذا ان کی اصل لڑائی بھارت کے ساتھ تھی لیکن ہم نے بدقسمتی سے اس کا رخ اپنی طرف موڑ لیا اور اس میں کہیں نہ کہیں ہماری بھی غلطی ہے‘ ہماری سفارتی اپروچ غلط ہے‘ ہم ہمیشہ افغانستان کی اپوزیشن کو سپورٹ کرتے ہیں جب کہ انڈیا افغانستان کی ہر حکومت کو مان لیتا ہے اور اس کے ساتھ تعلقات استوار کر لیتاہے‘ ظاہر شاہ کے دور میں ہم محمد دائود کو سپورٹ کر رہے تھے جب کہ بھارت ظاہر شاہ کے ساتھ تھا‘ اس زمانے میں تمام افغان سینمائوں میں بھارتی فلمیں چلتی تھیں اور ہندو اور سکھ افغانستان کے بڑے تاجر ہوتے تھے‘ دائود خان نے ظاہر شاہ کا تختہ الٹا تو ہم نے ظاہر شاہ کے ساتھ تعلقات استوار کر لیے جب کہ انڈیا دائود کے ساتھ کھڑا ہو گیا‘ روس آیا تو ہم مجاہدین کے ساتھی بن گئے‘ ہم نے انہیں رقم‘ ٹریننگ اور اپنے نوجوان دے دیے جب کہ انڈیا سوویت کے ساتھ کھڑا ہو گیا‘ روس کے بعد مجاہدین کی حکومتیں بننے لگیں تو ہم نے طالبان تخلیق کر دیے جب کہ انڈیا نے اپنے دروازے مجاہدین کے لیے کھول دیے‘
طالبان کی پہلی حکومت آئی تو ہم نے ان کے ساتھ بھی متھا لگا لیا‘ طالبان کے بعد حامد کرزئی اور اشرف غنی آئے تو ہم ان کے بھی مخالف ہو گئے اور طالبان کی سرپرستی کرنے لگے اور اب طالبان اقتدار میں ہیں تو ہم ان کے مخالفوں کے سر پر ہاتھ رکھنے کی تیاری کر رہے ہیں جب کہ بھارت نے ان کی خوشی کے لیے امیر خان متقی کی پریس کانفرنس سے تمام خواتین رپورٹرز باہر نکال دیں‘ ہمیں اپنی یہ اپروچ بھی بدلنا ہو گی‘ افغان جس کو بھی لے کر آتے ہیں ہمیں اچھے ہمسائے کی طرح اسے قبول کر لینا چاہیے‘ اسے پی ٹی آئی نہیں سمجھنا چاہیے‘ دوسرا ہمیں اب یہ سمجھ لینا چاہیے افغان ڈی این اے مختلف ہے‘ اسے ہر دور میں میدان جنگ چاہیے‘ یہ کسی نہ کسی بیرونی طاقت سے لڑیں گے اور اگرانہیں یہ سہولت میسر نہ ہوئی تو پھر یہ آپس میں بھڑ جائیںگے لہٰذا ہمیں کوشش کرنی چاہیے ہم ان کے لیے وہ بیرونی طاقت نہ بنیں جس کے ساتھ یہ مستقل جنگ چھیڑ لیں جب کہ بھارت انہی لائینز پر کام کر رہا ہے‘ یہ انہیں یقین دلا رہا ہے پاکستان ماضی کی یونانی‘ منگول‘ نادر شاہی ‘تیموری‘ برطانوی‘ روسی اور امریکی سلطنت جیسا ہے‘ تم اس کے ساتھ بھی وہی سلوک کرو جو تم نے تاریخ میں ان قوموں کے ساتھ کیا تھا‘ ہمیں انڈیا کو یہ موقع نہیں دینا چاہیے‘ افغان اگر ہندو سے نفرت کرتے ہیں تو ہم بہت بڑے بے وقوف ہوں گے جو اس نفرت کو اپنی طرف موڑ لیں اور بدقسمتی سے یہ ہو رہا ہے‘ افغانستان میں پاکستان اور پنجابی گالی بن چکے ہیں جس کا ہمیں مستقبل میں نقصان اور بھارت کو فائدہ ہو گا۔
ہمیں اب کرنا کیا چاہیے؟ یہ اس وقت کھرب ڈالر کا سوال ہے‘ اس کا جواب بھارت کے ریٹائرڈ جرنیل لیفٹیننٹ جنرل کے جی ایس ڈھلوں نے دیا تھا‘ یہ مقبوضہ کشمیر میں انڈیا کی 15 کور کا کمانڈر رہا‘ اس نے ایک انٹرویو میں پاکستان کے بارے میں کہا تھا ’’پاکستان از ناٹ اے سیریس کنٹری‘‘ اس کا کہنا تھا پاکستان کا ہر وزیراعظم اقتدار کے بعد ملک سے بھاگ جاتا ہے یا پھر جیل جاتا ہے جب کہ بھارت میں واجپائی کی حلف برداری کی تقریب میں من موہن سنگھ جاتا ہے اور نریندر مودی کی تقریب میں راہول گاندھی شریک ہوتا ہے‘ پاکستانی پارٹیاں ایک دوسرے کے ساتھ ہاتھ نہیں ملاتیں اور ہر وزیراعظم اقتدار کے بعد اپنی فوج کو برا بھلا کہتا ہے‘‘ جنرل ڈھلوں ہمارا دشمن ہے لیکن کیا اس کی بات غلط ہے؟ بدقسمتی سے اس کا جواب ناں ہے‘ یہ دشمن ہونے کے باوجود بات ٹھیک کہہ رہا ہے‘ ہمیں اس پر غور کرنا ہو گا‘ ہمیں ملک میں سیاسی استحکام لانا ہو گا‘ کاش کوئی ایک شخص اپنے اقتدار کی قربانی دے کر ایسی حکومت بنا دے جو سب کے لیے قابل قبول ہو اور اس کے بعد سیاسی انجینئرنگ مکمل طور پر بند کر دی جائے تو ملک استحکام کی سڑک پر آ جائے گا‘ یہ مرحلہ شروع میں مشکل ہو گا لیکن پانچ سے دس سال میں نظام رواں ہو جائے گا‘ دوسرا اداروں میں ایکسٹینشن ختم ہونی چاہیے‘ یہ وہ بدعت ہے جس نے ملک کو کسی قابل نہیں چھوڑا‘ آپ بے شک اداروں کے سربراہوں کو پانچ یا دس سال کے لیے مقرر کر دیں لیکن اس کے بعد ایکسٹینشن نہیں ہونی چاہیے‘ اسے ہر صورت جانا چاہیے اس سے بھی استحکام آئے گا ورنہ دوسری صورت میں یہ میوزیکل چیئر چلتی رہے گی اور ہر نیا آنے والا پورے ملک کا قبلہ بدلتا رہے گا‘ آپ جنرل ضیاء الحق اور جنرل مشرف کی اپروچ کا تجزیہ کر لیں‘ آپ نقصانات کا بخوبی اندازہ کر لیں گے تاہم میں فیلڈ مارشل کی ہارڈ سٹیٹ کی اپروچ سے اتفاق کرتا ہوں‘ ریاست ہر صورت میں ریاست ہونی چاہیے‘ اسے سخت ہونا چاہیے‘
یہ کیا تھیٹر ہے جس کا دل چاہتا ہے سڑکیں بند کر دیتا ہے اور ملک مفلوج ہو کر رہ جاتا ہے‘ یہ سلسلہ بند ہونا چاہیے‘ دوسرا ہم پر کبھی امریکا حملہ کر دیتا ہے‘ کبھی انڈیا اور کبھی برادر اسلامی ملک ایران اور افغانستان‘ یہ بھی کیا تماشا ہے‘ آپ کمال دیکھیں اب تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) بھی اٹک کے پل تک اپنی امارات اسلامیہ بنانا چاہتی ہے لہٰذا فوج کی اپروچ درست ہے‘ ہمیں کسی کو بھی خواہ وہ ہمارا دوست ہے یا دشمن پاکستان کی سرحد کی طرف دیکھنے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے‘ ہم نے انڈیا کے ساتھ بھی ٹھیک نبٹا‘ ہم افغانستان کو ٹھیک فکس کر رہے ہیں اور ہم نے جنوری 2024ء میں ایران کو بھی جواب دے کر اپنی عزت میں اضافہ کیا تھا‘ یہ اپروچ جاری رہنی چاہیے‘ دنیا میں ہمارا کوئی دوست یا دشمن نہیں ہونا چاہیے‘ جو ہماری عزت کرے گا وہ ہمارا دوست ہو گا اور جو ہمیں کم زور یا بھکاری سمجھے گا اس کے ساتھ وہی سلوک ہونا چاہیے جو ہم اس وقت کر رہے ہیں اور آخری درخواست خدا کے لیے اپنے آپ کو معاشی طور پر مضبوط کریں‘ مانگنا تانگنا بند کریں‘ ہم 25 کروڑ لوگ ہیں‘آپ قوم کو ہنرمند بنائیں‘ پورے ملک میں کوئی شخص بے ہنر نہیں ہونا چاہیے‘ قوم کو اپنے وسائل میں زندہ رہنا بھی سکھائیں اور ریاستی اداروں میں کرپشن اور لیکیج بھی ختم کریں‘ ہم پھرقوم بنیں گے‘ پاکستان کو اب خود کو سیریس ملک ثابت کرنا ہو گا ورنہ ہم باہر اور اندر دونوں جگہوں سے مار کھاتے رہیں گے۔















































