سینیٹرویسنتے سپین کے تاریخی شہر غرناطہ سے تعلق رکھتا ہے اور سپین کی سینیٹ کاممبر ہے‘یہ میرے دوست سہیل مقصودکا ذاتی دوست ہے‘ یہ دونوں اگست کے مہینے میں پاکستان میں میرے مہمان بنے ‘میںاور میرا بیٹا شماعیل انہیں اسلام آباد اور لاہورمیں گھماتے رہے‘ پاکستان کی خوب صورتی‘ مہمان نوازی اور لوگوں کی گرم جوشی نے ویسنتے کو بہت متاثر کیا‘ یہ پاکستانی کھانوں کا بھی دل دادہ ہو گیا‘ سینیٹر مشاہد حسین سید اور گوہر اعجاز کی شخصیت نے اس پر گہرے اثرات چھوڑے‘ ان کے کمیونی کیشن اور ورلڈ نالج نے اسے حیران کر دیا‘ یہ تمام چیزیں متاثر کن تھیں لیکن دو واقعات نے میرے سپینش دوست کو پریشان اور مجھے شرمندہ کر دیا‘میں آج بھی جب ان واقعات کے بارے میں سوچتا ہوں تو میرے ماتھے پر پسینہ آ جاتا ہے‘ پہلا واقعہ بلیو ایریا میں پیش آیا‘ میں اسے اسلام آباد کے ایک مشہور ٹیلر کے پاس لے گیا‘ ٹیلر نے مہربانی کی اور ایک دن میں سوٹ سی کر دینے کی حامی بھر لی‘ ہم دکان سے نکلے تو سینیٹر کو بھکاریوں نے گھیر لیا‘ وہ مختلف عمر کے چھ سات بھکاری تھے اور تین چار مختلف زبانوں میں اس سے بھیک مانگ رہے تھے اور وہ حیرت سے انہیں دیکھ رہا تھا جب کہ میں شرمندگی کے عالم میں بھکاریوں کو چپ کرانے اور سائیڈ پر کرنے کی کوشش کر رہا تھا لیکن میں جتنی کوشش کرتا تھا وہ اتنے ہی سینیٹر پر چڑھتے جا رہے تھے‘ میں نے خفت سے بچنے کے لیے جیب سے پیسے نکال کر ان کے حوالے کر دیے‘ میری یہ حماقت میرے گلے پڑ گئی ‘
کونوں کھدروں سے دس بیس بھکاری مزید آ گئے اور انہوں نے ہمیں گھیر لیا‘ میں بڑی مشکل سے اسے گاڑی تک لے کر آیا اور اسے بلیو ایریا سے نکال کر ہوٹل لے گیا‘ ہم سارا راستہ خاموش رہے‘ وہ بھی پریشان تھا اور میں بھی‘ ہوٹل پہنچ کر اس نے مشورہ دیا آپ حکومت کو سمجھائیں یہ بھکاری پاکستان جیسے خوب صورت اور شان دار ملک کے چہرے پر چیچک کے داغ ہیں‘ یہ رہیں گے تو پاکستان کی خوب صورتی چھپی رہے گی‘ میں نے اس سے اتفاق کیا۔ ویسنتے نے دوسرے دن پیدل شہر دیکھنے کی فرمائش کر دی‘ میں نے اسے ٹالنے کی کوشش کی لیکن وہ باز نہیں آیا‘ وہ ٹھیک سوچ رہا تھا‘ دنیا بھر کے دارالحکومتوں کو ’’بائی واک‘‘ دیکھا جاتا ہے‘ یہ نارمل سی ایکٹویٹی ہے‘ آپ کسی بھی ملک کے دارالحکومت میں چلے جائیں آپ کو لوگ ڈائون ٹائون میں پیدل چلتے‘ کھاتے پیتے اور ہنستے بولتے نظر آئیں گے‘ اس سرگرمی کے بغیر شہر ’’ڈیڈ‘‘ سمجھے جاتے ہیں‘ اسلام آباد بھی دارالحکومت ہے اور اس کے خیال کے مطابق وہ یہاں بھی ڈائون ٹائون کو ایکسپلور کر سکتا ہے‘ ہم بہرحال اسے لے کر نکل گئے‘ ہمیں ایک دو بلاک میں فٹ پاتھ مل گیا لیکن اس کے بعد فٹ پاتھ غائب ہو گیا اور ہمیں بار بار سڑک پر آنا پڑا‘ جہاںفٹ پاتھ تھے وہ بھی ناہموار اور ٹوٹے ہوئے تھے‘ گھروں کے سامنے پہنچ کر یہ اونچے اور ڈھلوانوں پر اچانک ڈھلوانی ہو جاتے تھے اور ہمیں اپنے آپ کو سنبھالنا مشکل ہو جاتا تھا‘ فٹ پاتھ مارکیٹوں میں پہنچ کر غائب ہو جاتے تھے‘ ہم جناح سپر پہنچے تو وہاں لوگوں نے فٹ پاتھوں پر گاڑیاں پارک کر رکھی تھیں‘ سگنلز پر زیبرا کراسنگ نہیں تھیں اور جہاںتھیں وہاں زیبرا کراس پر گاڑیاں کھڑی تھیں اور لائنیں ان کے ٹائروں کے نیچے دفن ہو چکی تھیں لہٰذا ہمارے لیے اب گزرنا محال تھا‘ لوگ سڑکوں کو درمیان سے کراس کر رہے تھے اور موٹر سائیکل سوار کسی ٹریفک رول کی پرواہ نہیں کر رہے تھے‘ وہ یہ دیکھ کر بہت پریشان ہوگیا اور اس نے پوچھا‘ آپ لوگ اتنے خوب صورت شہر کو ’’واک ایبل‘‘ کیوں نہیںبناتے؟آپ اگر ٹریفک پولیس کو ذرا سا ٹرینڈ کر دیں‘ ٹریفک لاز مضبوط کر دیں اور پورے شہر کو فٹ پاتھوں سے جوڑ دیں تو شہر کی لیونگ کہیں سے کہیں پہنچ جائے گی‘ میں نے اس سے اتفاق کیا لیکن اس اتفاق کا کیا فائدہ؟کیوں کہ جب تک اس پر عمل نہیں ہوگا شہر تبدیل نہیں ہوگا۔
ہم مانیں یا نہ مانیں لیکن ہم ایک بھکاری قوم ہیں‘ ہم اوپر سے لے کر نیچے تک بھیک مانگتے ہیں اور یہ علت ہمارے ڈی این اے میں چلی گئی ہے‘ آپ کسی دن اپنی فون کالز اور ملاقاتیوں کا تجزیہ کر لیں‘ آپ کو ان میں سے آدھے لوگ کچھ نہ کچھ مطالبہ کرتے یا مانگتے ہوئے ملیں گے اور یہ لوگ بظاہر خوش حال بھی ہوں گے‘ ہم شاید اپنی یہ علت جلد ختم نہیں کرسکیں گے‘ انسانوں کے لیے ایسی چیزکو جڑوں سے کھرچ کر نکالنا آسان نہیں ہوتا لیکن ہم کم از کم سڑکوں پر دندناتے بھکاری تو ختم کر سکتے ہیں اور یہ کام زیادہ مشکل نہیں ہے‘ آدھی سے زیادہ دنیا یہ کر چکی ہے‘ میں نے چند ماہ قبل کالم میں وزیر داخلہ محسن نقوی سے بھکاریوں کے خلاف کارروائی کی درخواست کی تھی‘ انہوں نے پولیس اور انتظامیہ کو ہدایات جاری کر دیں اور پولیس نے بھکاری پکڑنا شروع کر دیے جس کے بعدایک نیا بحران پیدا ہوگیا‘ جیل میںقیدیوں کے لیے گنجائش نہیں تھی اور اوپر سے سینکڑوں بھکاری بھی آ گئے‘ دوسرا یہ لوگ جیل میں پہنچ کر زیادہ مطمئن ہو گئے‘ کھانا مفت مل رہا تھا‘ رہنے کے لیے جگہ تھی اور گرمیوں میں پانی اور پنکھا بھی دستیاب تھا لہٰذا یہ جیل میں خوشی خوشی رہنے لگے‘ جیل سپرنٹنڈنٹ نے پندرہ دن میںہاتھ باندھ دیے یوں یہ پراجیکٹ مٹی میں مل گیا‘ میری ان دنوں محسن نقوی سے ملاقات ہوئی‘ میں نے انہیں ایران اور سعودی عرب کا طریقہ بتایا وہاں پولیس بھکاریوں کو پکڑ کر موقع پر بھی کوڑے مار دیتی ہے‘ یہ ہنس پڑے‘ یہ طریقہ ظاہر ہے عرب ملکوں میں ممکن ہے‘ ہم اسے پاکستان میں استعمال نہیں کر سکتے‘ میرے پاس چند دن قبل ایک صاحب تشریف لائے‘ ان کا نام ڈاکٹر فرخ ہے اور یہ ماضی میں پی اے ایف میں کام کرتے تھے‘ یہ پائلٹس کے ڈاکٹر تھے‘
مجھے انہوں نے مشورہ دیا حکومت کو چاہیے یہ بھکاریوں کو سزا دینے کی بجائے بھیک دینا جرم بنا دے‘ ملک بالخصوص اسلام آباد میں جو شخص کسی بھکاری کو بھیک دیتا پکڑا جائے اسے بھاری جرمانہ یادو تین دن قید کی سزا دے دی جائے‘ بھیک کا کاروبار دو ماہ میں بند ہو جائے گا‘ یہ ایک مناسب تجویز ہے‘ حکومت کو چاہیے یہ فوری طور پر اسلام آباد میں بھیک دینا جرم قرار دے دے یوں یہ علت بڑی حد تک کم ہو جائے گی‘ میں آپ کو یہاں ازبکستان کی مثال دوں گا‘ میں پندرہ سال قبل پہلی مرتبہ تاشقند گیا تو وہاں ٹھیک ٹھاک بھکاری تھے لیکن اس سال دو مرتبہ ازبکستان جانے کا اتفاق ہوا تو دور دور تک کوئی بھکاری نہیں تھا‘ معلوم ہوا حکومت نے عوام کی مدد سے پورے ملک سے بھکاری ختم کر دیے‘ عوام کو بتایا گیا آپ کو اگر کسی جگہ کوئی بھکاری نظر آئے تو آپ اس کی تصویر بنا کر فوراً پولیس کو بھجوادیں‘ عوام نے یہ کرنا شروع کر دیا جس کے بعد حکومت بھکاری کی تصویرڈیٹاسے میچ کر کے اسے گرفتار کر لیتی تھی اور پھر اسے کسی نہ کسی مشقت پر لگا دیا جاتا تھا یوں بھیک کی علت ختم ہو گئی‘ ہم ستمبر میں بخارہ میں حضرت بہائوالدین نقش بندیؒ کے مزار پر حاضر ہوئے‘ ہمیں مزار کے باہر پارکنگ میں دو تین بھکاری نظر آئے لیکن وہ جب ہماری طرف بڑھے تو ایک راہ گیر نے اپنے موبائل فون کا کیمرہ آن کیا اور بھکاری فوراً بھاگ کھڑے ہوئے چناں چہ اگر ازبکستان اس عام سی تکنیک سے بھکاری ختم کر سکتا ہے تو ہم کیوں نہیں کر سکتے؟حکومت کو اس کے بارے میں سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے۔
میری محسن نقوی اور چیئرمین سی ڈی اے سے درخواست ہے آپ مہربانی فرما کر اسلام آباد کو فٹ پاتھوں سے جوڑ دیں‘ تمام سڑکوں کے ساتھ فٹ پاتھ بنوائیں‘ ان کا لیول یکساں ہونا چاہیے تاکہ کوئی بھی شخص آنکھیں بند کر کے ان پر واک کر سکے اور اس کے گرنے کا کوئی اندیشہ نہ ہو‘ یہ کوئی بڑا کام نہیں اور اسے کرنے کے لیے کوئی راکٹ سائنس نہیں چاہیے‘ یہ پوری دنیا میں ہو چکا ہے‘ شہر کو اسی طرح بے ہنگم پارکنگ سے بھی بچایا جا سکتا ہے‘ آپ سڑکوں کے کنارے لائین لگا دیں اور لوگ ان میں گاڑیاں پارک کریں جو ایسی لائینوں کی پابندی نہ کرے آپ اسے جرمانہ کریں‘ اس سے پارکنگ میں ڈسپلن آ جائے گا‘ اسی طرح زیبرا کراسنگ بنوائیں اور ان کی لائنوں کی پابندی کرائیں‘ ازبکستان جیسے غریب ملک میں بھی زیبرا کراسنگ سے بیس فٹ پیچھے لائنیں لگی ہوتی ہیں اور کوئی گاڑی ریڈ سگنل دیکھ کر اس لائین سے آگے نہیں بڑھتی لہٰذا گزرنے والوں کے لیے بے انتہا سہولت ہو جاتی ہے‘ کیا ہم اسلام آباد میں یہ نہیں کر سکتے؟ وفاقی دارالحکومت میں ہیلمٹ کی خلاف ورزی عام ہے‘
آپ کسی سڑک پر نکل جائیں آپ کو ہیلمٹ نظر نہیں آئیں گے‘ حکومت ہر ماہ اس کے لیے کمپیئن کرتی ہے لیکن اس پر عمل نہیں ہوتا‘ یہ کام بھی زیادہ مشکل نہیں‘ حکومت موٹر سائیکل بنانے اور بیچنے والوں کو پابند کر دے یہ موٹر سائیکل کے ساتھ دو ہیلمٹ دیں گے جس کے بعدپولیس کو حکم دے دیا جائے اسے جہاں کوئی شخص ہیلمٹ کے بغیر نظر آئے یہ ایک ماہ کے لیے اس کا موٹر سائیکل ضبط کر لے یا پھر اس سے کم سے کم سڑک پر سو ڈنڈ اور بیٹھکیں نکلوا لے‘ عوام سے بھی درخواست کی جائے آپ کو جہاں کوئی شخص ہیلمٹ کے بغیر موٹر سائیکل چلاتا نظر آئے آپ اس اور اس کی موٹر سائیکل کی تصویر بنا کر پولیس کو واٹس ایپ کر دیں اور پولیس موٹر سائیکل کا نمبر دیکھ کر مالک کو گھر سے گرفتار کرلے اور اس کا موٹر سائیکل ایک ماہ کے لیے ضبط کر لے‘ یہ مسئلہ بھی حل ہو جائے گا‘ ہمیں بہرحال ان دو تین چھوٹے چھوٹے مسائل کا حل نکالنا ہو گا ورنہ ہم پھنستے چلے جائیں گے‘ میں پھر عرض کر رہا ہوں ہم اگر 20 کلومیٹر کے چھوٹے سے شہر میں قانون نافذ نہیں کر سکتے تو پھر یہ پورے ملک میں نہیں ہو سکے گا اور عوام کی صورت حال خراب سے خراب تر ہوتی چلے جائے گی۔















































