آک لینڈ (نیوز ڈیسک) کھیلوں کی دنیا میں سب سے سے مشکل کام کیا ہے؟ برازیل یا انگلینڈ کی فٹبال ٹیموں کو سنبھالنا یا انگلینڈ کے کرکٹ اسکواڈ کی کوچنگ ؟ مگر مصباح الحق کے لیے اس کا جواب سادہ ہے یعنی ان کی پاکستان کے کپتان کی پوزیشن، وہ ٹیم جسے ورلڈ کپ میں ایک حریف کوچ ‘ پیشگوئی کی حد تک ناقابل پیشگوئی’ قرار دے چکا ہے۔آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کے میدانوں میں اولین دو میچز میں بڑی شکستیں، آٹھ پاکستنای کھلاڑیوں کو کرفیو توڑنے پر جرمانہ، تربیتی گراﺅنڈ میں تنازعات کے دعوے جبکہ چیف سلیکٹر کو کرائسٹ چرچ کے کیسنیو جانے پر وطن واپسی کا بلاوا، اور ان سے بھی بڑھ کر پاکستان میں موجود کروڑوں پرجوش پرستاروں کے مطالبات۔ملک میں بین الاقوامی کرکٹ نہ ہونے سے کشیدگی کے شکار اور 2011 میں انگلینڈ میں کرپشن پر تین کھلاڑیوں کا جیل جانا وغیرہ ایسے معمالات ہیں جن میں پاکستانی ٹیم کا کپتان ہی سب کے مکوں کا ہدف یا پنچ بیگ بنتا ہے۔مگر اپنے پانچ سالہ قیادت کے دوان چالیس سالہ مصباح پاکستان کے سب سے کامیاب ٹیسٹ کپتان ثابت ہوئے، ون ڈے میچز میں انہوں نے ہندوستان کو ہندوستان میں جبکہ جنوبی افریقہ کو اس کے ہوم گراﺅنڈ میں شکست دی۔
مگر جب وہ اسکور کرتے اور ٹیم ناکام ہو جائے تو وہ نکالے جانے کے مطالبات کا ہدف بن جاتے، اگر وہ اسکور نہ کرتے اور ٹیم اچھی کارکردگی دکھاتی تو بھی وہ ہدف بنتے۔جب پاکستان کو ورلڈکپ میں ہندوستان اور ویسٹ انڈیز کے ہاتھوں اولین دو میچز میں ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا تو مصباح کے پتلے لاہور میں نذر آتش کیے گئے جبکہ ملتان میں ٹیم کی فرضی تدفین عمل میں آئی۔
مصباح کہتے ہیں ” یہ کھیلوں کی دنیا کی پانچ مشکل ترین ملازمتوں میں سے ایک ہے”۔ان کے بقول ” لوگوں میں بہت زیادہ توقعات ہوتی ہیں اور جب وہ پوری نہ ہو تو آپ کو غیر ضروری طور پر بھی تنقید کا سامنا کرنا پڑتا ہے، ہر دوسرے دن آپ کو مشکل کا سامنا ہوتا ہے اور اس کے ٹیم پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں کیونکہ کھلاڑیوں کو تکلیف پہنچتی ہے، ان کے خاندان متاثر ہوتے ہیں اور ٹیم کی توجہ بھٹک جاتی ہے”۔پاکستان کرکٹ ٹیم کی قیادت ہمیشہ ہی مشن امپاسبل نظر آتی ہے۔جب جاوید میاں داد 1980 میں کپتان مقرر ہوئے تو انہیں سنیئر کھلاڑیوں کی بغاوت کا سامنا کرنا پڑا جن کی شکایت تھی جن کی شکایت تھی کہ انہیں نظرانداز کیا گیا ہے، اسی قسمت کا سامنا وسیم اکرم کو 1994 میں کرنا پڑا۔یہاں تک کہ عمران خان جن کی پیدائش میانوالی میں ہوئی جہاں سے مصباح بھی تعلق رکھتے ہیں، کو بھی پاکستان کی قیادت اس وقت چھوڑنا پڑی جب گرین شرٹس نے اپنا پہلا اب تک کا واحد ورلڈکپ ٹائٹل 1992 میں جیتا۔ورلڈکپ سے پہلے کا وقت مصباح کے لیے سخت ترین تھا ان کی فارم اتنی خراب ہوچکی تھی کہ وہ خود آسٹریلیا کے خلاف گزشتہ سال اکتوبر میں تیسرے ون ڈے سے دستبردار ہوگئے۔پی سی بی کی جانب سے انہیں ورلڈکپ تک کے لیے کپتان مقرر کر نے کے اعلان کے باوجود یہ شبہات آخری وقت کت موجود رہے کہ میگا ایونٹ میں مصباح پاکستان کی قیادت کریں گے یا نہیں۔مصباح یاد کرتے ہیں ” وہ سب سے مشکل دور تھا، میں رنز نہیں کر پا رہا تھا اور پھر انجری کا بھی شکار ہوگیا”۔مصباح کی پوزیشن کو ان سے زیادہ مقبول شاہد آفریدی کے ہاتھوں خطرے کا سامنا ہوا، اس اسٹار آل راﺅنڈر کی جگہ ہی 2011 میں مصباح نے ون ڈے ٹیم کی قیادت سنبھالی تھی، حالانکہ وہ ایک سال قبل ہی ٹیسٹ میچز کی کپتانی کے لیے اسپاٹ فکسنگ اسکینڈل کے بحران کے بعد منتخب ہوچکے تھے۔
پاکستان کے 2010 کے دورہ انگلینڈ کے دوران ٹیسٹ کپتان سلمان بٹ، فاسٹ باﺅلر محمد آصف اور محمد عامر کو اسپاٹ فکسنگ پر پانچ سالہ پابندی کا سامنا کرنا پڑا جبکہ جیل بھی گئے۔مصباح کہتے ہیں ” میں ہمیشہ سے ہی تنازعات سے بچنے کی کوشش کرتا رہا ہوں، اسپاٹ فکسنگ تنازع کے بعد ہمیں استحکام اور تنازعات سے بچنے کی ضرورت تھی، یقیناً ہر کھلاڑی کا اپنا ذہن ہوتا ہے اور کپتان کو لچکدار ہونا چاہئے تاکہ ان کے ساتھ ڈیل کرسکے”۔وہ مزید بتاتے ہیں ” ہمیں معاملات غیر حل شدہ چھوڑنے اور مزید پیچیدہ بنانے کی بجائے انہیں حل کرنے کی ضرورت تھی، میرے ٹھنڈے مزاج نے میری مدد کی ورنہ یہاں تو صرف دو دن تک ٹکنا بھی بہت مشکل ہے”۔مصباح کی کپتان کے انداز سے قطع نظر ان کی ون ڈے میچز میں سست بلے بازی کی وجہ سے انہیں طنزیہ عرفیت “ٹک ٹک” سے نوازا گیا۔مصباح اس بارے میں کہتے ہیں ” مجھے وکٹ پر روکنے کی ضرورت تھی تو اس لیے میں اپنی طاقت کے مطابق نہیں کھیلتا، کیونکہ جب میں کریز پر جاتا ہوں میری ٹیم دبا? کا شکار ہوتی ہے”۔اپنے سست ترین بلے باز ہونے کا تصور مصباح نے آسٹریلیا کے خلاف اکتوبر میں صرف 56 گیندوں میں تیز ترین ٹیسٹ سنچری کا ریکارڈ برابر کرتے ہوئے چکنا چور کردیا۔
مصباح الحق، شاہد آفریدی اور یونس خان