جمعرات‬‮ ، 18 دسمبر‬‮ 2025 

اسرائیل اور ایران کے درمیان جنگ کی نئی خفیہ تفصیلات آگئیں

datetime 18  دسمبر‬‮  2025 |

واشنگٹن (این این آئی)ایک مشترکہ صحافتی تحقیقات نے دہائیوں بعد ایران کو نشانہ بنانے والے خطرناک ترین اور وسیع ترین فوجی و انٹیلی جنس آپریشنز کی تفصیلات بے نقاب کردی ہیں۔ اسرائیل نے امریکہ کی براہ راست اور بالواسطہ حمایت سے ایرانی ایٹمی پروگرام کے خلاف ایک کثیر جہتی مہم چلائی، جس میں اعلی سائنسدانوں کا قتل، افزودگی کی تنصیبات پر حملے اور فضائی دفاع کو ناکارہ بنانا شامل تھا۔ اسےآپریشن نارنیاکا نام دیا گیا ۔ یہ آپریشنرائزنگ لائننام کی وسیع تر مہم کا حصہ تھا۔امریکی اخبار کے مطابق جنگ کی تیاریاں تقریبا مکمل تھیں۔ اسرائیل کے لیے تربیت یافتہ درجنوں ایجنٹ ایران کے اندر موجود تھے جو جدید ترین ہتھیاروں سے لیس تھے۔

اسرائیلی فضائیہ کے پائلٹ ایرانی ایٹمی ڈھانچے، بیلسٹک میزائل لانچ پیڈز اور دفاعی نظاموں پر حملے کے احکامات کے منتظر تھے۔ ایک طویل بحث کے بعد اسرائیل اور اس کے حامی امریکہ کے درمیان اس بات پر اتفاق ہو گیا تھا کہ تہران ایٹمی ہتھیار حاصل کرنے کے کتنے قریب پہنچ چکا ہے۔ اسی دوران ایران کو متوقع حملے سے بے خبر رکھنے کے لیے سفارتی چالیں چلی جا رہی تھیں۔اسرائیلی سکیورٹی حکام نے محسوس کیا کہ ایٹمی پروگرام کو صرف عارضی نقصان پہنچانا کافی نہیں بلکہ انماسٹر مائنڈز” کو ختم کرنا ضروری ہے جو ایٹمی مواد کو بم میں تبدیل کرنے کے ماہر ہیں۔ 13 جون کی صبح 3:21 بجے، اسرائیل اور ایران کے درمیان 12 روزہ جنگ کے ابتدائی منٹوں میں، اسرائیلی ہتھیاروں نے تہران میں رہائشی عمارتوں کو نشانہ بنانا شروع کر دیا۔ اس مہم میں 11 ممتاز ایرانی ایٹمی سائنسدانوں کو قتل کیا گیا جن میں نظریاتی ماہرِ طبیعیات محمد مہدی تہرانچی اور سابق ایٹمی توانائی تنظیم کے سربراہ فریدون عباسی شامل تھے۔ ان حملوں نے مشرقِ وسطی کو ہلا کر رکھ دیا اور ایران میں انتقام کی آگ بھڑکا دی جس سے حالیہ عرصے میں کسی بھی سفارتی معاہدے کا امکان ختم ہو گیا ہے۔سفارت کاری اور گمراہ کن معلومات رپورٹ کے مطابق نیتن یاہو نے صدر ٹرمپ کو حملے کے چار مختلف منصوبے پیش کیے تھے۔ ٹرمپ سفارت کاری کو موقع دینا چاہتے تھے لیکن ساتھ ہی انہوں نے اسرائیل کے ساتھ انٹیلی جنس تعاون بھی جاری رکھا۔ اسرائیل اور امریکہ نے جان بوجھ کر میڈیا میں ایسی خبریں پھیلائیں جن سے یہ تاثر ملے کہ دونوں ملکوں کے درمیان شدید اختلافات ہیں تاکہ ایران کسی اچانک حملے کے لیے تیار نہ رہے۔ ٹرمپ نے ایران کو 60 دن کی مہلت دی تھی جو 12 جون کو ختم ہوئی۔ اس دوران نیتن یاہو اور ٹرمپ نے ایران کو یہ تاثر دیا کہ وہ مذاکرات کے لیے تیار ہیں جبکہ پسِ پردہ حملے کی حتمی منظوری دی جا چکی تھی۔

امریکی اور اسرائیلی حکام کا کہنا تھا کہ ایرانی ایٹمی پروگرام کو پہنچنے والا نقصانتباہ کن” ہے۔ بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی کے سربراہ رافیل گروسی کے مطابق نقصان بہت زیادہ ہے۔ اگرچہ ایران کے پاس اب بھی 60 فیصد افزودہ یورینیم کا ذخیرہ موجود ہے۔ دوسری جانب ایران کے علی لاریجانی کا کہنا ہے کہ ایٹمی ٹیکنالوجی کو مکمل طور پر ختم نہیں کیا جا سکتا کیونکہ یہ ایک دریافت ہے جسے چھینا نہیں جا سکتا۔صدر جو بائیڈن اور ڈونلڈ ٹرمپ کے ادوار میں اسرائیل اور امریکہ اس بات پر متفق تھے کہ ایران جوہری ہتھیار حاصل کرنے کی سمت کام کر رہا ہے۔ لیکن دونوں ممالک کی انٹیلی جنس ایجنسیاں کبھی کبھار اس تشخیص میں اختلاف کرتی تھیں کہ ایرانی سائنسدان کیا کر رہے ہیں اور اس کا مطلب کیا ہے۔ 2023 کے آغاز سے امریکی سی آئی اے نے ایسی معلومات جمع کیں کہ ایرانی وزارت دفاع کے ایک یونٹسپندمیں کام کرنے والے محققین جوہری ہتھیاروں کی تعمیر کو تیز کرنے کے طریقے اس صورت میں تلاش کر رہے تھے اگر ایرانی سپریم لیڈر علی خامنہ ای 2003 کے اس فتوے سے پیچھے ہٹنے کا فیصلہ کریں جس میں جوہری ہتھیاروں کو ممنوع قرار دیا گیا تھا۔امریکی انٹیلی جنس کا اندازہ تھا کہ ایرانی ایک ابتدائی جوہری آلہ بنانے پر غور کر رہے ہیں جسے ان کے پاس موجود افزودہ یورینیم کے ذخائر کا استعمال کرتے ہوئے تقریبا چھ ماہ میں تیار کیا جا سکتا ہے۔ اس آلے کا پہلے سے تجربہ کرنا یا اسے بیلسٹک میزائل سے داغنا ممکن نہیں تھا لیکن اس کے باوجود سامنے آنے کی صورت میں یہ تباہ کن ہوتا۔ ایسا بھی محسوس ہوتا تھا کہ ایرانیفیوژن” ہتھیاروں پر بھی غور کر رہے ہیں جو ایٹم بموں کی ایک زیادہ جدید اور طاقتور قسم ہے۔ امریکی اور اسرائیلی انٹیلی جنس تجزیہ کاروں نے اتفاق کیا کہ فیوژن بم، اپنی سنگینی کے باوجود، ایران کی صلاحیتوں سے باہر تھا۔لیکن 2025 کی بہار تک، اسرائیلی تجزیہ کاروں کو اب اس بات کا یقین نہیں رہا تھا کہ علی خامنہ ای علانیہ طور پر فتوے سے دستبرداری کا اعلان کریں گے یا یہ کہ اگر ایران نے جوہری ہتھیار بنانا شروع کر دیا تو وہ بروقت اس کا پتہ لگا سکیں گے۔ 12 جون کورائزنگ لائن” آپریشن کے موقع پر بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی (آئی اے ای اے)نے اعلان کیا کہ تہران نے جوہری عدم پھیلا سے متعلق اپنی ذمہ داریوں کی خلاف ورزی کی ہے۔ یہ 20 سالوں میں اس طرح کی پہلی سرزنش تھی۔جب نیتن یاہو نے ٹرمپ کی دوسری صدارتی مدت کے آغاز پر پہلے غیر ملکی رہنما کے طور پر ان سے ملاقات کی تو انہوں نے ایران پر حملے کے چار تصورات پیش کیے۔

نجی سفارتی مشاورت کی تفصیلات بتانے والے ایک باخبر شخص نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر یہ بتایا۔ نیتن یاہو نے پہلے دکھایا کہ اگر اسرائیل اکیلے یہ آپریشن کرے تو یہ کیسا ہوگا۔ پھر دوسرا آپشن جس میں اسرائیل قیادت کرے اور امریکہ محدود تعاون کرے۔ تیسرا آپشن دونوں اتحادیوں کے درمیان مکمل تعاون تھا۔ اور آخری آپشن یہ تھا کہ امریکہ اس آپریشن کی قیادت کرے۔اس کے بعد مہینوں تک شدید اور خفیہ سٹریٹجک منصوبہ بندی شروع ہوئی۔ دو باخبر افراد کے مطابق ٹرمپ ایران کے ساتھ جوہری سفارت کاری کو ایک موقع دینا چاہتے تھے لیکن انہوں نے اسرائیل کے ساتھ انٹیلی جنس معلومات کے تبادلے اور آپریشنل منصوبہ بندی کو جاری رکھا۔ ان میں سے ایک نے کہا کہ سوچ یہ تھی کہ اگر مذاکرات ناکام ہو گئے تو ہم آپریشن کے لیے تیار ہوں گے۔اسرائیلی رہنماں کا خیال تھا کہ اگر وہ آخر کار ایران پر حملہ کرنے کا فیصلہ کرتے ہیں تو عالمی رائے عامہ کے لیے سفارت کاری کو موقع دینا اہم ہے۔ لیکن انہیں یہ بھی ڈر تھا کہ ٹرمپ ایک معاہدہ کرنے کی خواہش میں کسی ایسے سمجھوتے پر راضی نہ ہو جائیں جو ان کے لیے قابل قبول نہ ہو۔ اپریل کے وسط میں ٹرمپ نے ایران کو جوہری معاہدے تک پہنچنے کے لیے 60 دن کی مہلت دی۔ یہ مہلت 12 جون کو ختم ہوگئی۔ اس دوران ٹرمپ اور نیتن یاہو نے ایرانیوں کو اس بات سے بے خبر رکھنے کے لیے کام کیا کہ آگے کیا ہونے والا ہے۔ ٹرمپ نے اس دن صحافیوں سے کہا کہ ایران پر اسرائیلی حملہ حقیقت بن سکتا ہے لیکن انہوں نے مذاکراتی حل کو ترجیح دینے کا اشارہ دیا۔ اسرائیلی حکام نے یہ معلومات لیک کیں کہ نیتن یاہو کے مشیر رون ڈرمر اور موساد کے سربراہ ڈیوڈ برنیا جلد ہی امریکی خصوصی ایلچی سٹیو وٹکوف سے ملاقات کریں گے۔ اسی دوران اتوار 15 جون کو امریکہ اور ایران کے درمیان جوہری مذاکرات کا ایک نیا دور بھی ہونا تھا۔لیکن اس کے باوجود اسرائیل نے حملے کا فیصلہ کر لیا تھا اور امریکہ کو اس کا علم تھا۔ منصوبہ بند سفارت کاری محض ایک دھوکہ تھی اور دونوں ملکوں کے حکام نے میڈیا رپورٹس کی حوصلہ افزائی کی جن میں امریکہ اور اسرائیل کے درمیان اختلافات کی بات کی گئی تھی۔ ایک باخبر شخصیت نے کہا وہ تمام رپورٹیں کہ نیتن یاہو وٹکوف یا ٹرمپ کے ساتھ ایک پیج پر نہیں ہیں، غلط تھیں۔ لیکن یہ تاثر عام ہونا اچھا تھا کیونکہ اس نے منصوبہ بندی کو آگے بڑھانے میں مدد دی۔

اسرائیلی بمباری اور قتل و غارت کی مہم شروع ہونے کے بعد بھی ٹرمپ انتظامیہ نے آخری سفارتی کوشش کی۔ انہوں نے خفیہ طور پر ایران کو اس کے جوہری پروگرام پر تعطل ختم کرنے کے لیے ایک تجویز بھیجی۔ ایرانی جو نہیں جانتے تھے وہ یہ تھا کہ یہ اقدام ٹرمپ کی طرف سے اسرائیل کے ساتھ امریکی طاقت کو شامل کرنے کی منظوری دینے سے پہلے ان کا آخری موقع ہوگا۔ اس معاہدے کی شرائط، جوواشنگٹن پوسٹ” نے حاصل کی ہیں اور پہلے کبھی ظاہر نہیں کی گئیں، انتہائی سخت تھیں۔ ان میں مطالبہ کیا گیا تھا کہ تہران حزب اللہ اور حماس جیسے گروپوں کی حمایت ختم کرے اور فردو ایٹمی پلانٹ اور کسی بھی دوسرے فعال یونٹ کو ایسے متبادل مراکز سے بدلے جو افزودگی کی اجازت نہیں دیتے۔ اس کے بدلے میں امریکہ ایران پر عائد تمام پابندیاں اٹھا لے گا۔ یہ پندرہ جون کی تجویز میں درج تھا۔ اس عمل میں شامل ایک سینئر سفارت کار کے مطابق امریکہ کی جانب سے قطری سفارت کاروں کے ذریعے ایران کو تجویز بھیجے جانے کے تھوڑی دیر بعد تہران نے اس پیشکش کو مسترد کر دیا اور ٹرمپ نے امریکی حملوں کی اجازت دے دی۔امریکی اور اسرائیلی حکام کے ساتھ ساتھ آئی اے ای اے کے حکام کا کہنا ہے کہ ایرانی جوہری پروگرام کو پہنچنے والا نقصان اگرچہ مکمل نہیں ہے لیکن بہت زیادہ ہے۔ اس حملے نے پروگرام کو برسوں پیچھے دھکیل دیا ہے اور غالبا اس وقت ایران کی اس یورینیم افزودگی کی صلاحیت کو ختم کر دیا ہے جو جوہری ہتھیار بنانے میں استعمال ہو سکتی ہے۔انسٹی ٹیوٹ فار سائنس اینڈ انٹرنیشنل سیکیورٹی نے نومبر میں جاری کردہ ایک تشخیص میں، جو جزوی طور پر سیٹلائٹ تصاویر پر مبنی تھی، اعلان کیا کہ متعدد جوہری مقامات پر فضائی حملوں سے ہونے والا نقصان بہت وسیع تھا اور بہت سے معاملات میں تباہ کن تھا۔ آئی اے ای اے کے ڈائریکٹر جنرل رافیل گروسی نیفرنٹ لائن” کو بتایا کہ نقصانات کا حجم بہت بڑا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ ایران کے پاس اب بھی تقریبا 900 پانڈ 60 فیصد افزودہ یورینیم کا ذخیرہ موجود ہے جو جوہری ہتھیار بنانے کے لیے درکار 90 فیصد کی سطح سے صرف ایک قدم دور ہے۔ انہوں نے وضاحت کی کہ یہ ذخیرہ اصفہان، فردو اور نطنز کے مقامات پر اب بھی بڑی حد تک اپنی جگہ پر موجود ہے۔ تاہم اس مواد تک ایران کی رسائی کی صلاحیت کا معاملہ اب بھی واضح نہیں ہے خاص طور پر اس لیے کہ ایجنسی کے انسپکٹرز کو حملوں کے بعد سے اہم تنصیبات میں داخل ہونے سے روک دیا گیا ہے۔ گروسی نے تبصرہ کیا کہ ظاہر ہے کہ سائٹ تک جسمانی رسائی کے بغیر کوئی بھی تشخیص جزوی ہی رہے گی۔امریکی اخبار نے ستمبر میں اطلاع دی تھی کہ جنگ کے خاتمے کے بعد سے ایران نے نطنز کے بالکل جنوب میںجبل الفاس” کے نام سے مشہور ایک پراسرار زیر زمین مقام پر تعمیراتی کام تیز کر دیا ہے۔ اسرائیلی حکام اور امریکہ میں مقیم تجزیہ کاروں نے اخبار کو بتایا کہ ایران چین کی مدد سے اپنے بیلسٹک میزائلوں کے ذخیرے کو دوبارہ بنانے کی کوشش بھی کر رہا ہے۔ ٹرمپ نے دھمکی دی ہے کہ اگر ایران دوبارہ اعلی سطح پر یورینیم کی افزودگی شروع کرتا ہے تو وہ نئے حملے کریں گے۔دوسری طرف ایرانی سپریم نیشنل سکیورٹی کونسل کے سیکرٹری علی لاریجانی جون کی جنگ کے بعد غیر ملکی میڈیا کو دیے گئے اپنے پہلے انٹرویو میں ان دھمکیوں سے متاثر نظر نہیں آئے۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ ایرانی جوہری پروگرام کو کبھی تباہ نہیں کیا جا سکتا۔ کیونکہ ایک بار جب آپ کوئی ٹیکنالوجی دریافت کر لیتے ہیں تو وہ آپ سے یہ دریافت چھین نہیں سکتے۔

آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں


کالم



جو نہیں آتا اس کی قدر


’’آپ فائز کو نہیں لے کر آئے‘ میں نے کہا تھا آپ…

ویل ڈن شہباز شریف

بارہ دسمبر جمعہ کے دن ترکمانستان کے دارالحکومت…

اسے بھی اٹھا لیں

یہ 18 اکتوبر2020ء کی بات ہے‘ مریم نواز اور کیپٹن…

جج کا بیٹا

اسلام آباد میں یکم دسمبر کی رات ایک انتہائی دل…

عمران خان اور گاماں پہلوان

گاماں پہلوان پنجاب کا ایک لیجنڈری کردار تھا‘…

نوٹیفکیشن میں تاخیر کی پانچ وجوہات

میں نریندر مودی کو پاکستان کا سب سے بڑا محسن سمجھتا…

چیف آف ڈیفنس فورسز

یہ کہانی حمود الرحمن کمیشن سے شروع ہوئی ‘ سانحہ…

فیلڈ مارشل کا نوٹی فکیشن

اسلام آباد کے سرینا ہوٹل میں 2008ء میں شادی کا ایک…

جنرل فیض حمید کے کارنامے(آخری حصہ)

جنرل فیض حمید اور عمران خان کا منصوبہ بہت کلیئر…

جنرل فیض حمید کے کارنامے(چوتھا حصہ)

عمران خان نے 25 مئی 2022ء کو لانگ مارچ کا اعلان کر…

جنرل فیض حمید کے کارنامے(تیسرا حصہ)

ابصار عالم کو 20اپریل 2021ء کو گولی لگی تھی‘ اللہ…