لاہور(سعید چودھری )ایک بھارتی اخبار نے دعوی ٰ کیا ہے کہ کرکٹ ورلڈ کپ2015ءکے نتائج پہلے سے طے شدہ اور اس کے میچ فکسڈ ہیں ۔اس اخبار نے یہ دعوی ٰ بھی کیا ہے کہ بھارت کو ورلڈ کپ میں کچھ نہیں ملے گا اس مرتبہ کی فاتح ٹیم ساﺅتھ افریقہ ہوگی ۔
اس خبر میں کس حد تک سچائی ہے اس کا پتہ تو ورلڈ کپ کے اختتام پر ہی چلے گاتاہم اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ کرکٹ کے کھیل کو میچ فکسنگ جیسے خطرات کا سامنا ہے ۔ شرفاءکے کھیل کرکٹ میں جواءبازی اور میچ فکسنگ کے الزامات پہلی مرتبہ کب سامنے آئے اس کا جواب جسٹس محمد قیوم جوڈیشل کمیشن کی رپورٹ میں موجود ہے ۔یہ انکوائری 1999ءمیں پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیف ایگزیکٹو ماجد خان کے خط کی بنیاد پر کروائی گئی تھی ۔جسٹس قیوم جوڈیشل کمیشن رپورٹ کے ابتداءمیں ہی یہ چیز شامل ہے کہ پاکستان پر میچ فکسنگ کے الزامات 1979-80ءمیں شروع ہوئے جب پاکستانی کپتان آصف اقبال نے ٹیم کے بھارتی دورے کے دوران “ٹاس “پر شرط لگائی ۔بھارتی کرکٹر جی ۔ویشواناتھ نے اپنی کتاب میں تحریر کیا کہ آصف اقبال نے ٹاس مکمل ہونے سے پہلے ہی انہیں ٹاس جیتنے کی مبارک باد دے دی تھی ۔سابق کرکٹر ڈونلڈ ٹاپلے نے 1994ءمیں “سنڈے مرر”نے ایک مضمون لکھا جس میں انہوں نے انکشاف کیا کہ 1991ءکے کاﺅنٹی کرکٹ سیزن میں اسیکس اور لنکا شائر کی ٹیموں کو میچ فکس کرنے کے لئے بھاری معاوضہ دیا گیا ۔1994-95ءمیں پاکستانی دورہ کے دوران آسٹریلیا کی ٹیم ایک صفر سے سیریز ہار گئی تو آسٹریلوی کھلاڑیوں شین وارن ، ٹم مے اور مارک وا ہ نے الزام لگایا کہ پاکستانی کپتان سلیم ملک نے انہیں ٹیسٹ اور ون ڈے میں بری باﺅلنگ کروانے کے لئے رشوت کی پیش کش کی تھی ۔اسی قسم کے الزامات پاکستانی کرکٹرز باسط علی اور راشد لطیف نے بھی اپنے ساتھی کھلاڑیوں پر لگائے اوران دونوں کھلاڑیوں نے میچ فکسنگ کے خوف سے جنوبی افریقہ کے اہم دورہ کے دوران پری میچور ریٹائرمنٹ لے لی تھی ۔جسٹس قیوم جوڈیشل کمیشن رپورٹ کے مطابق پی سی بی کے سابق چیف ایگزیکٹو ماجد خان ، جاوید برکی ، سابق کپتان عمران خان ،جاوید میاں داد ،سابق کوچ انتخاب عالم ،ہارون الرشید ،راشد لطیف ،عامر سہیل اور عاقب جاوید کا کہنا ہے کہ میچ فکسنگ کی لعنت کرکٹ میں اپنی جگہ بنا چکی ہے ۔اسی قسم کے الزامات آسٹریلوی کھلاڑیوں کے خلاف بھی موجود ہیں ۔ولزٹرافی 1991ءمیں شکست کے بعد بھارتی ٹیم نے پاکستان پر میچ فکسنگ کے الزامات لگا کر پاکستان کے خلاف شارجہ میں کھیلنے سے انکار کردیا تھا ۔سنگر کپ کے فائنل میں جیتا ہوا میچ پاکستان کے ہاتھوں ہارنے پر سری لنکن بورڈ نے بھی اپنی ٹیم کے خلاف انکوائری کا حکم دیا تھا ۔رپورٹ میں قرار دیا گیا ہے کہ کرکٹ کبھی شرفاءکا کھیل ہوا کرتا تھا جسے عالمی سطح پر میچ فکسنگ کے خطرات کا سامنا ہے ۔یہ بھی ممکن ہے کہ میچ فکسنگ اور جواءبازی ایک عالمی حقیقت ہو ۔
دولت کی چمک ،میچ کی آمدنی میں سے کھلاڑیوں کے حصے اور میچ کھیلنے کی بڑھتی ہوئی تعداد نے کرکٹ کو ایک تجارت بنا دیا ہے ۔کرکٹ کی اقدار کو زندہ رکھنے والے کمیاب ہیں ۔کرکٹ کی اقدار کی پاسداری کرنے والوں میں سے کورٹنی والش کو بھلایا نہیں جاسکتا جس نے 1987ءکے ورلڈ کپ میں ایک پاکستانی کھلاڑی عبدالقادر کو رن آﺅٹ کرنے سے انکار کردیا تھا کہ اس کے خیال میں ایسا کرنا کرکٹ روایات کے منافی ہے ۔اس میچ میں کورٹنی والش گیند کروانے کے لئے دوڑاتو پاکستانی کرکٹر نے رن لینے کے لئے تقریباً آدھی پچ کا سفر طے کرلیا تھا ۔باﺅلر چاہتا تو اسے رن آﺅٹ کرسکتا تھا لیکن کورٹنی والش نے ایسا کرنے کی بجائے اسے صرف وارننگ دی ۔اگر کورٹنی والش اسے رن آﺅٹ کردیتا تو ویسٹ انڈیز یہ میچ جیت جاتا کیوں کہ یہ پاکستان کی دسویں وکٹ تھی ۔رپورٹ میں عمران خان کابھی کرکٹ کی اقدار کے پاسبانوں کے طور پرذکر کیا گیا ہے کہ انہوں نے ایمپائر کے آﺅٹ دینے پر ناخوش بھارتی کرکٹر کرس سری کانت کو واپس بلا کر دوسری باری بھی دے دی تھی ۔(یہ الگ بات ہے کہ سری کانت اس سے اگلی ہی بال پر بولڈ ہوگئے تھے) ۔رپورٹ میں ماجد خان کی بھی تعریف کی گئی ہے کہ وہ اگر آﺅٹ ہوجاتے تو ایمپائر کی انگلی کھڑی ہونے سے پہلے ہی کریز چھوڑ کر پویلین واپس لوٹ جاتے تھے۔