راولپنڈی (مانیٹرنگ ڈیسک) پاکستان کی عسکری تاریخ کے ہیرو اور جرأت اور بہادری کی انمٹ مثال قائم کرنیوالے پاک فوج کے سپاہی مقبول حسین گزشتہ روز سی ایم ایچ اٹک میں علالت کے بعد خالق حقیقی سے جا ملے ہیں۔ سپاہی مقبول حسین 1965 میں سری نگر میں ایک کامیاب مشن میں زخمی ہو کربھارت کے جنگی قیدی بنے جہاں بزدل دشمن نےبجائے بین الاقوامی قوانین اور
جنیوا کنونشن کے تحت قیدیوں سے سلوک روا رکھنے کے سپاہی مقبول حسین کیساتھ بے رحمی اور ظلم کی انتہا کرتے ہوئے ہاتھ پاؤں کے “ناخن ” پلاس سے کھینچے اور زبان کاٹ دی لیکن جرات و بہادری کا یہ استعارہ پورے جذبہ ایمانی اور استقامت سے ڈٹا رہا ۔ سپاہی مقبول حسین سے دوران قید پاکستان مردہ باد کا نعرہ لگوانے کیلئے تشدد اور صعوبتوں کے پہاڑ توڑ دئیے گئے مگر پاک دھرتی کی محبت جزو ایمان بنائے پاک مٹی کے خمیر سے پروان چڑھنے والا یہ سپوت اپنی دھرتی ماں کی توہین وہ بھی اپنے ہی منہ سے کبھی گوارا نہیں کر سکتا تھا۔ بھارتی ٹارچر سیل پھر بجائے ’’پاکستان مردہ باد‘‘کے پاکستان زندہ باد کے نعروں سے گونج اٹھتا، بدلے میں کبھی پلاس سے ناخن کھینچ لئے جاتے اور خون بہنے لگتا ۔ سپاہی مقبول حسین وطن کی محبت کا ثبوت ٹارچر سیل کی دیواروں پر تشدد کے دوران قلم بنائی گئی اس کی انگلی سے بہنے والے خون سے پاکستان زندہ باد لکھ کر دیتا۔ ٹارچر سیل میں پاکستان زندہ باد کے نعروں کو روکنے کیلئے سپاہی مقبول حسین کی زبان کاٹ دی گئی مگر مقبول کا جذبہ مقبول ٹھہرا دشمن کے حربے اس کے جذبوں کو ٹھنڈا نہ کر سکے ۔ بے بس ہو کر اسے قید کر دیا گیا جہاں کبھی تو پینے کیلئے کئی کئی دن تک پانی میسر نہ ہوتا اور کبھی کئی دن بھوکے گزارنے پڑتے مگر آفرین ہے عظیم ماں کے اس عظیم سپوت پر جس نے کسی لمحے بھی
وطن کی محبت کو بھلایا نہیں۔ 40سال بھارتی جیلوں میں قید رکھنے کے بعد دشمن کا حوصلہ ٹوٹ گیا اور بالآخر سپاہی مقبول حسین کو ایل او سی کے ایک ویران علاقے میں چھوڑ دیا گیا جہاں سے سپاہی مقبول حسین 40سال قبل کے راستوں کو یاد کرتے ہوئے اپنے یونٹ پہنچ گیا اور کمانڈنگ آفیسر کو فوجی انداز میں سلیوٹ کرتے ہوئے اپنا آرمی نمبر بتایا اور کہا کہ سپاہی مقبول حسین ڈیوٹی
کیلئے تیار ہے سر!۔ کمانڈنگ آفیسر نے فوری طور پر متعلقہ عسکری حکام کو مطلع کیا اور سپاہی مقبول حسین کا آرمی نمبر چیک کیا گیا تو عقدہ کھلا کہ جسے لاپتہ اور شہید سمجھ لیا گیا تھا وہ زندہ سلامت ڈیوٹی دینے پہنچ چکا ہے۔ سپاہی مقبول حسین 40سال بعد بوڑھا ہو چکا تھا، کمر بھی جھک چکی تھی مگر پیشانی اور آنکھوں میں وہی جذبہ روشن اور موجز ن تھا جب وہ سرینگر کے محاذ پر
داد شجاعت دیتے ہوئے زخمی ہو ا تھا۔ 2005میں پاکستان لوٹنے والے سپاہی مقبول حسین کو اس وقت کے آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی نے سلیوٹ کیا اور ان کی جرأت، بہادری اور شجاعت پر ان کی تعریف کی ۔ سپاہی مقبول حسین کو ان کی خدمات کے اعتراف میں ستارہ جرأت سے نوازا گیا۔ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے سپاہی مقبول حسین کے انتقال پر ان کے اہلخانہ سے تعزیت کا اظہار کیا ہے، مرحوم کی نمازِ جنازہ آج ادا کی جائے گی۔پاک فوج کے سپہ سالار جنرل قمر جاوید باجوہ نے سپاہی مقبول حسین کی رحلت پر ان کے اہلخانہ سے دلی ہمدردی اور تعزیت کا اظہار کیا ہے۔ مرحوم کی نمازِ جنازہ پورے فوجی اعزاز کے ساتھ ادا کی جائے گی۔