اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)پاکستان کے معروف کالم نگار اور سینئر صحافی ، تجزیہ نگار اور اینکرپرسن جاوید چوہدری نے پاکستان کی تاریخ کے سب سے بڑے سکینڈل پر سے آج سے چند برس قبل پردہ اٹھایا تھا۔ نجی ٹی وی ایکسپریس نیوز میں اپنے پروگرام ’’کل تک‘‘میں جاوید چوہدری کا کہنا تھا کہ پچھلی صدی میں دنیا میں ایک ہزار ایسے فراڈ ہوئے تھے جنہوں نے انسانی عقل کو دنگ کر کے رکھ دیا تھا۔ ان فراڈ میں سر فہرست برطانیہ میں ایک انٹرنیشنل بینک کیشئر کی جانب سے کیا جانے والا فراڈ ہے
جس میں ایک کیشئر بینک کے کمپیوٹر کے ذریعے بینک کے لاکھوں کسٹمرز کے بینک اکائونٹس سے ایک ایک پینی نکالتا تھا اور یہ رقم اپنی بہن کے اکائونٹ میں ٹرانسفر کر دیا کرتا تھا وہ یہ کام 15برس تک مسلسل کرتا رہا اور اس طرح اس نے بینک سے کئی ملین پائونڈ چرا لئے آخر میں یہ شخص ایک یہودی تاجر کی شکایت پر پکڑا گیا تھا۔ اسی قسم کا ایک فراڈ پچھلے تیس برسوں سے پاکستان میں بھی ہو رہا ہے اور یہ فراڈ ہماری سرکاری مشینری کر رہی ہے۔ اس فراڈ سے متعلق جاننے سے قبل آپ کو پاکستانی کرنسی کا بیک گرائونڈ جاننا ضروری ہے کیونکہ اس بیک گرائونڈ کا اس فراڈ کے ساتھ بڑا گہرا تعلق ہے۔ پاکستان کی کرنسی یکم اپریل 1948کو لانچ کی گئی تھی ، اس کرنسی میں 6سکے بھی شامل تھے، ان سکوں میں ایک روپے کا سکہ ، اٹھنی، چونی، دونی، اکنی، ادنیٰ اور ایک پیسے کا سکہ شامل تھا۔اس زمانہ میں ایک روپیہ 16آنے اور چونسٹھ پیسوں کے برابر ہوتا تھا۔ یہ سکے یکم جنوری 1961تک پاکستان میں رائج رہے اور چلتے رہے1961میں صدر ایوب خان نے ملک میں کرنسی کا اعشاریہ نظام نافذ کر دیاجس کے بعد ایک روپیہ سو پیسوں کا ہو گیا اور اٹھنی، چونی، دونی اور پیسہ ختم ہو گیااور ان کی جگہ 50پیسے، 25پیسے، دس پیسے، 5پیسےاور ایک پیسے کے سکے رائج ہو گئے۔ یہ سکے جنرل ضیا الحق کے دور تک چلتے رہے اور بعد ازاں آہستہ آہستہ ختم ہو گئے۔
یہاں تک کہ آج سب سے چھوٹا سکہ ایک روپیہ کا ہے، اور ہم نے پچھلے 30برسوں سے ایک پیسے، 5پیسے، دس پیسے اور 25پیسے کے کوئی سکہ نہیں دیکھا، کیوں؟کیونکہ سٹیٹ بینک آف پاکستانیہ سکے جاری ہی نہیں کررہا۔ لیکن آپ حکومت کا کمال دیکھئےکہ حکومت جب بھی بجلی، گیس اور پٹرول کی قیمت میں اضافہ کرتی ہے تو اس میں روپوں کے ساتھ ساتھ پیسے ضرور شامل کر دئیے جاتے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب ملک میں پیسے کا سکہ موجود ہی نہیں تو جب کوئی شخص ایک لٹر پٹرول ڈلوائے گا
تو کیا پب(پٹرول پمپ)کا کیشئر اسے پیسوں میں بچ جانے والی رقم واپس کرے گا؟ (مثال کے طور پر آج اگر پٹرول ڈلواتے ہیں تو آپ کو 72روپے اور 80پیسے ادا کرنے پڑتے ہیں جبکہ آپ نے کیشئر کو 100روپے کا نوٹ دیا ہے، کیشئر آپ کو 27روپے واپس کرے گا جبکہ 73روپے کاٹے گا، آپ کو 20پیسے واپس نہیں ملنے لگےکیونکہ پاکستان میں 5، 10، 25اور 50پیسوں کے سکے سٹیٹ بینک جاری ہی نہیں کر رہا مگر حکومت اشیا کی قیمتیں متعین کرتے وقت ان کی قیمتوں میں پیسے بھی شامل کررہی ہے)۔ اب آپ اس سے بھی دلچسپ صورتحال ملاحظہ کریں کہ پاکستان میں روزانہ 3لاکھ 62ہزار بیرل
پٹرول فروخت ہوتا ہے (یہ اعدادوشمار چند برس قبل کے ہیں)اور اگر اس کو ہم لٹر میں کلکولیٹ کریں تو یہ 5کروڑ 8لاکھ 80ہزار لٹر پٹرول بنتا ہے۔اور اگر پٹرول سپلائی کرنے والی کمپنیاں ہر لٹر پرفی لٹرمتعین قیمت میں موجود پیسے اڑانا شروع کر دیں تو یہ رقم 5کروڑ کے لگ بھگ بن جاتے ہیں اور اگر اس رقم کو مہینوں، مہینوں کو برسوں اور برسوں کو 30سال سے ضرب دے دیں تو یہ رقم کتنی بنے گی ؟اس کا اندازہ آپ خود لگا لیجئے۔سوال یہ ہے کہ یہ رقم کہاں جا رہی ہےاور اس کا فائدہ کون اٹھا رہا ہے اور جب ملک میں پیسے کا سکہ ہی موجود نہیں اور حکومت سکوں کو معیار بنا کر قیمتوں میں اضافہ کیوں کرتی ہے۔ اور اگر آپ اس سوال کا جواب تلاش کریں تو امید ہے کہ یہ پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا سکینڈل ہو گا۔