ہفتہ‬‮ ، 20 دسمبر‬‮ 2025 

موت

datetime 20  جولائی  2017 |

میں اپنے علاقے کا سب سے پرانا درزی تھا اور میرے تمام محلے والے مجھے بخوبی جانتے تھے۔ میرا اچھا خاصا کاروبار چل رہا تھا۔ کیونکہ میں سب سے پرانا درزی تھا اور میرے کاریگر تعداد اور کولٹی دونوں میں علاقے کے باقی تمام درزیوں سے کہیں زیادہ تھے تو میرا کاروبار کافی چمکا ہوا تھا۔ ایک دن میں بیٹھا ایک نئے کریگر کو لعن طعن کر رہا تھا کہ ایک انتہائی خوبصورت انیس بیس سال کا نوجوان دکان میں داخل ہوا

اور میرے سے مخاطب ہوا کہ ماسٹر جی یہ میرے کپڑے لے لو اور ان کا ایک نفیس سا کرتا شلوار تیار کر دو۔پھر اس نے اپنا ناپ دیا اور نمبر دے دیا کہ جب یہ تیار ہو جائیں تو مجھے فون کر کے بتا دینا میں آ کر دکان سے لے جاؤں گا۔میں نے پوچھا کہ بیٹا آپ کو پہلی بار ادھر دیکھا ہے اور میں اس محلے کے ایک ایک آدمی سے واقف ہوں۔ آپ کون ہو؟ لڑکا بولا کہ انکل میں دراصل کراچی میں رہتا ہوں اور جاب کے سلسلے میں آیا ہوا ہوں۔ اپنے چچا کے گھر رہ رہا ہوں ابھی کچھ ہی دن ہوئے ہیں۔ میں نے پوچھا کہ آپ کے چچا کا کیا نام ہے؟ تو بولا کہ عبد الرزاق۔ میں پہچان گیا۔ میں نے کہا کہ ٹھیک ہے آپ ایک ہفتے بعد آکر اپنا کرتا شلوار لے جانا۔ میرے پاس بہت رش بھی تھا اور کام کافی جمع تھا تو میں نے اسے ایک ہفتے کا وقت دے دیا۔ کوئی تین دن گزرے تھے کہ عبدالرزاق مجھے مسجد میں ملا۔ میں نے اس سے اس کے بھتیجے کا ذکر کیا کہ بہت اچھا، خوبصورت اور با ادب لڑکا ہے، میں نے بتایا کہ اس کے کپڑے تیار تھے کہ عبدالزاق کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ میں نے حیران ہو کر پوچھا کہ بھائی خیر تو ہے۔۔کیا ہوا؟ تو بیچارہ بولا کہ وہ کراچی کی طرف جا رہا تھا کہ اس کی گاڑی کا اتنا سنگین حادثہ ہو گیا

کہ موقع پر اس کی وفات ہو گئی اور یہ کل کی بات تھی۔ میرے پیروں تلے تو جیسے زمین نکل گئی ہو۔عبد الزاق نے مجھے بولا کہ ماسٹر صاحب آپ علاقے کے سب سے ماہر درزی ہو، میں آپ سے ہی اس کے کفن کا کپڑا لوں گا، اس کا کفن سی دیں اور مجھے بتا دیجیے گا میں آکر لے لوں گا۔ میں جب اپنی دکان میں داخل ہوا تو میرا ذہن بالکل ماؤف تھا۔

کدھر میں اس حسین نوجوان کے کپڑے بنا کر بیٹھا ہوا تھا اور کدھر اس کا آخری لباس بنانے کی ذمہ داری میرے سر آن پڑی۔ مجھے اللہ سے بہت خوف آرہا تھا، ہم سب دنیا اور دنیاوی کاموں میں اپنا سارا وقت گزار دیتے ہیں اور کبھی یہ نہیں سوچتے کی اگلے لمحے کی خبر نہیں اور کیسے ہمیشہ روپے پیسے، نوکری کی تلاش میں وہ مارا مارا پھر رہا تھا

اور اس نے کبھی سوچا بھی نہ ہو گا کہ اس کا دانا پانی اس دنیا سے اٹھ چکاتھا۔ ہر گزرنے والے لمحے اپنی موت کو یاد کرو کیونکہ وہ ہمارا سایہ ہے ، بر حق ہے اور کسی بھی لمحے آ سکتی ہے۔

موضوعات:

آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں


کالم



جو نہیں آتا اس کی قدر


’’آپ فائز کو نہیں لے کر آئے‘ میں نے کہا تھا آپ…

ویل ڈن شہباز شریف

بارہ دسمبر جمعہ کے دن ترکمانستان کے دارالحکومت…

اسے بھی اٹھا لیں

یہ 18 اکتوبر2020ء کی بات ہے‘ مریم نواز اور کیپٹن…

جج کا بیٹا

اسلام آباد میں یکم دسمبر کی رات ایک انتہائی دل…

عمران خان اور گاماں پہلوان

گاماں پہلوان پنجاب کا ایک لیجنڈری کردار تھا‘…

نوٹیفکیشن میں تاخیر کی پانچ وجوہات

میں نریندر مودی کو پاکستان کا سب سے بڑا محسن سمجھتا…

چیف آف ڈیفنس فورسز

یہ کہانی حمود الرحمن کمیشن سے شروع ہوئی ‘ سانحہ…

فیلڈ مارشل کا نوٹی فکیشن

اسلام آباد کے سرینا ہوٹل میں 2008ء میں شادی کا ایک…

جنرل فیض حمید کے کارنامے(آخری حصہ)

جنرل فیض حمید اور عمران خان کا منصوبہ بہت کلیئر…

جنرل فیض حمید کے کارنامے(چوتھا حصہ)

عمران خان نے 25 مئی 2022ء کو لانگ مارچ کا اعلان کر…

جنرل فیض حمید کے کارنامے(تیسرا حصہ)

ابصار عالم کو 20اپریل 2021ء کو گولی لگی تھی‘ اللہ…