آج سے ستر سال پہلے ایک امیر یہودی تاجریورپ کی ایک ٹرین میں سوار ہوتا ہے‘ ٹرین کے ڈبے میں ایک غریب‘ مفلوک الحال اور گندہ مندہ سا شخص بھی سفر کر رہا تھا‘ یہودی تاجر بڑی نفرت‘ کراہت اور نخرے کے ساتھ اس کی طرف دیکھتا ہے‘ اسے اس غریب شخص کے ساتھ بیٹھتے ہوئے بھی تکلیف محسوس ہوتی ہے‘
وہ اپنی ناک کو اس سے دور رکھنے‘ اپنے صاف ستھرے کپڑوں کو اس کے میلے کچیلے کپڑوں سے بچانے اور اپنے سامان کو اس کے گندے تھیلے سے دور رکھنے کی کوشش کرتا ہے‘ غریب شخص حیرت سے اس امیر تاجر کی طرف دیکھتا ہے‘ تاجر کو اس کا یوں دیکھنا پسند نہیں آتا چنانچہ وہ اس کی بے عزتی شروع کر دیتا ہے‘وہ اسے ڈانٹتا بھی ہے‘اسے گالیاں بھی دیتا ہے‘ اسے ٹھڈے بھی مارتا ہے اور آخر میں اسے چلتی ہوئی ٹرین سے دھکا دینے کی کوشش بھی کرتا ہے لیکن غریب شخص اس کے یہ سارے ظلم‘ یہ ساری زیادتیاں چپ چاپ سہتا رہتا ہے‘وہ منہ سے امیر شخص کے خلاف ایک لفظ نہیں نکالتا یہاں تک کہ دونوں کا سٹیشن آ جاتا ہے‘ امیر شخص کو پلیٹ فارم پر پورے شہر کے معززین‘ دانشور‘ سیاستدان‘ بزنس مین اور سکالرز دکھائی دیتے ہیں‘ وہ ٹرین سے اتر کر لوگوں سے اس اجتماع کے بارے میں پوچھتا ہے تو اسے بتایا جاتا ہے اس ٹرین میں یروشلم کا سب سے بڑا ربی سوار ہے اور یہ لوگ اس کے استقبال کےلئے پلیٹ فارم پر کھڑے ہیں‘ وہ امیر تاجر بھی ان لوگوں کے ساتھ کھڑا ہو جاتا ہے‘ذرا دیر بعد وہ تاجر یہ دیکھ کر حیران رہ جاتا ہے وہ سارا راستہ جس شخص کی توہین کرتا رہاوہی شخص دراصل یروشلم کا چیف ربی تھا‘
تاجر خود کو اچانک گناہ گار محسوس کرتا ہے چنانچہ وہ زمین پر بیٹھ کر ربی کے پاﺅں پکڑ لیتا ہے‘ ربی مسکرا کر اس کی طرف دیکھتا اوراس سے کہتا ہے ” میرے بچے ٹرین میں‘ میں نہیں تھا‘ اس ملک کا ایک عام غریب شخص تھا چنانچہ تم نے میری توہین نہیں کی تھی‘ تم نے اس ملک کے غریبوں کی توہین کی تھی‘ تم نے اگر ایک ربی کی توہین کی ہوتی تو میں تمہیں فوراً معاف کر دیتا
لیکن کیونکہ تمہارا ہدف غریب لوگ تھے چنانچہ تمہیں اب اس ملک کے تمام غریبوں سے معافی مانگنا پڑے گی بصورت دیگر اللہ تعالیٰ تمہیں معاف نہیں کرے گا“۔یہودیوں کے کٹڑ فرقے ”ہیسے ڈک“ کی سچی داستان ہے اور اس کا مطلب ہے ہم جب کسی طبقے کے ایک شخص کی توہین کرتے ہیں تو ہم بنیادی طور پر اس ساری کلاس کی بے عزتی کر رہے ہوتے ہیں اور قدرت اس وقت تک توہین کرنے والے کو معاف نہیں کرتی
جب تک وہ ساری کلاس سے معافی نہ مانگ لے۔مرض نفسحضرت جنید بغدادی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ایک دن میں تہجد کیلئے اٹھا‘ جب نماز پڑھنے کا ارادہ کیا تو مجھ پر ناقابل بیان اضطراب طاری ہو گیا‘ بجائے تہجد پڑھنے کے میں ذکر الٰہی میں مشغول ہو گیا تو تب بھی طبیعت میں بے قراری محسوس کرتا رہا- آخر کار میں ادھر ادھر ٹہلنے لگا مگر بے قراری کی کیفیت ختم نہ ہوئی‘ پھر میں جا کر بستر پر لیٹ گیا لیکن کیفیت جوں کی توں رہی‘
پتا نہیں چل رہا تھا کہ اس بے چینی کا سبب کیا ہے؟ آخر میں جوتے پہن کر باہر نکل آیا اور کھلی فضا میں ٹہلنے لگا‘ گھر سے کچھ ہی دور گیا تھا کہ میں نے دیکھا کہ ایک شخص چوغے میں ملبوس اپنے اوپر چادر اوڑھے لیٹا ہوا ہے‘ میں دیکھ کر حیران ہوا کہ یہ کون شخص ہے کہ جو پچھلے پہر یہاں لیٹا ہوا ہے‘فرماتے ہیں کہ میں جب اس کے قریب پہنچا تواس نے مجھ سے مخاطب ہو کرکہا ‘
آ گئے ہو ابو القاسم ! تم نے آتے آتے بہت دیر کر دی ‘ حضرت جنید فرماتے ہیں اس آدمی کی بات سن کر مجھ پر ایک عجیب سا رعب طاری ہو گیا‘ پر میں نے پوچھا کہ میں نے آپ کے پاس آنے کا کوئی وعدہ تو نہیں کیا تھا کہ جس کی پابندی مجھ پر فرض ہوتی‘مذکورہ شخص نے حضرت جنید سے کہا ‘ اے ابو القاسم ! آپ سچ کہتے ہیں مگر میں نے خداوند ذوالجلال کو جو دلوں کو حرکت دیتا ہے
اورمقلب القلوب ہے یہ کہا تھا کہ آپ کے دل کو حرکت دے اور میری جانب بھیج دے‘ حضرت جنید نے کہا ‘ بے شک اللہ تعالی نے میرے دل کو آپ کی طرف مائل کر دیا ہے اور میں آ بھی گیا ہوں‘ اب آپ مجھے بتائیں کہ آپ مجھ سے کیا چاہتے ہیں ؟وہ شخص بولا ‘ اے ابو القاسم! میں ایک سوال کا جواب آپ سے پوچھنا چاہتا ہوں‘ اس سوال نے کئی دنوں سے مجھے پریشان کر رکھا ہے‘
حضرت جنید نے پوچھا آپ بتائیے‘ سوال کیا ہے؟ اس نے کہا سوال یہ ہے کہ مرض نفس کب نفس کی دوا بن جاتا ہے‘ حضرت جنید نے جواب دیا‘ جب انسان اپنی خواہشات کی مخالفت کرتا ہے تو اس حالت میں مرض نفس اس کے نفس کا علاج بن جاتا ہے‘ حضرت جنید کا یہ جواب سن کر وہ شخص اپنے دل کو مخاطب کر کے کہنے لگا‘ میں نے تجھے سات مرتبہ یہی جواب دیا تھا
مگر تونے میری بات نہیں مانی اور یہی کہتا رہا کہ جب تک جنید کی زبانی نہیں سنوں گا اس وقت تک نہیں مانوں گا ‘ اب تو تونے سن لیا کہ جنید کیا کہتے ہیں ؟ یہ کہہ کر وہ شخص تیز رفتاری کے ساتھ چلا گیا‘ آپ کھڑے سوچتے ہی رہے کہ وہ شخص کون تھا اور کہاں سے آیا تھا- حضرت جنید فرماتے ہیں کہ اس سے پہلے میں اسے نہیں جانتاتھا۔