امام ابوحنیفہ کے کپڑے کی دکان تھی ۔اذ آپ مدرسے کے بعد وہاں تجارت کرتے تھے.امت محمدی کو اگر تجارت کسی نے سکھائی ہے وہ یا تو خلیفہ اول ابو بکر صدیق تھے یا پھر امام ابو حنیفہ ۔ ایک دن ظہر کی نماز کے بعد اپنی دکان بند کردی
جانے لگے تو ساتھی دکاندار نے کہا ” ابو حنیفہ آج تو جلدی نکل لیے کہاں جارہے ہے آپ آج اتنی جلدی ” امام ابو حنیفہ نے فرمایا ” آپ دیکھ نہیں رہے کہ آسمان پہ کالے بادل آچکے ہیں” اس شخص نے کہا ” یا نعمان آسمان کے بادلوں کا دکان سے کیا لینا دینا” امام ابو حنیفہ نے فرمایا ” جب بادل گہرے ہوجاتے ھے تو چراغ کی روشنی اندھیرا ختم کرنے کے لیے کافی نہیں ہوتی جس کی وجہ سے گاہک کو کپڑے کی ورائیٹی کا پتہ نہیں چلتا اسکو کوالٹی کی پہچان نہیں ہوتی ۔ میں نے اس وجہ سے دکان جلدی بند کردی کہ میرے پاس آیا ہوا گاہک کم قیمت کپڑے کو قیمتی سمجھ کر زیادہ پیسے نہ دے ۔” آج کے دکانداروں کے پاس جاکر پتہ چلتا ہے کہ جب انکے پاس کوئی معصوم گاہک آجاے تو وہ انکو ایسی قینچی سے زبح کرلیتے ھے کہ دو نمبری کپڑا بھی ایک نمبر کی قیمت پہ فروخت کرلیتے ھے۔ بلکہ آجکل تو باقاعدہ سے گاہک کو لوٹنے کے عجیب وجیب طریقے آے ھے ۔ کپڑے کے دکانداروں کے علاوہ باقی سب لوگ شیئر کریں