اسلام آباد(احمد ارسلان) ہمارے سلیبس میں ایک سبق ہوا کرتا تھا’مولانا محمد حسین آزاد‘ کا ’محنت پسند خرد مند ‘۔ وہ سبق تھا محنت پسندی کا جس محمد حسین آزاد نوجوانوں کو محنت کا درس دے رہے ہیں مگر زار ٹھہریں ۔۔۔! کسی انسان کی بات کیوں کی جائے ، ہم بات کرتے ہیں خالق کائنات کی جس نے اپنی تخلیق ’انسان ‘ کو محنت کی عظمت کچھ یوں بتائی کہ ارشاد فرما دیا ’’ الکاسب حبیب اللہ ‘‘ یعنی محنت کرنے والا اللہ کا دوست ہے ۔اور سچ بھی یہی ہے کہ محنت کرنے والوں کی محنت کبھی رائیگاں نہیں جاتی ۔
یہ کہانی بھی ایک کچھ ایسی ہی ہے ۔ وہ شخص 10مارچ 1990ءکو سمبڑیال تحصیل کے گاوں جیٹھی کی ایک مڈل کلاس فیملی میں پیدا ہوا۔ بہن بھائیوں میں کیونکہ سب سے بڑا تھا لہذا والد کے ساتھ ساتھ گھر کی ذمہ داری اس کے ناتواں کندھوں پر بھی لازماً آنی تھی تو اپنی حیثیت کاخود تعین کرتے ہوئے اس نے والد کا بوجھ بانٹنے کیلئے ان کے ساتھ کام شروع کردیا ۔ آٹھ ماہ تک ویلڈنگ جیسے انتہائی مشکل کام میں خون پسینہ ایک کیا ۔ آگے بڑھنے کی لگن دل میں موجود تھی تو ویلڈنگ کے کام کو چھوڑ کر وہ کچہری کی جانب بڑھا ۔وقت پر لگا کراُڑ گیا اور رجسٹری کا کام کرتے 2سال بیت گئے ۔ گھر کے حالات بہتر بنانے کی سوچ میں وہ اپنے سب سے بڑے شوق کو تو بھول ہی چکا تھا، وہ شوق تھا ’’کرکٹ‘‘۔ کرکٹ اس کی نس نس میں تھا ۔ کہیں گیند بلا دیکھا نہیں کہ من میں چوکے چھکے مارنے کی خواہش انگڑائیاں لینے لگی ۔ گلی محلے میں ٹیپ والی بالوں کے ساتھ وہ اپنا شوق پورا کرتا رہا اور ایک دن قسمت نے یاوری کی اور اس کا شوق اسے ڈسٹرکٹ انڈر 19تک لے آیا اور تب اسے سیالکوٹ ریجن کی نمائندگی کا موقع ملا ۔
پھر قائد اعظم ٹرافی میں شاندار بائولنگ اور پی ٹی وی کیلئے سیزن میں 61وکٹ کی پرفارمنس پیش کرنے کے بعد تو وہ نظروں میں آگیا اور یوں 2017میں پاکستان کو ایک اور عظیم کرکٹر اور بائولر مل گیا جس نے آتے ہی اپنے آپ کو ایک بہترین کرکٹر منوایا اور ثابت کیا کہ گلی محلوں سے نکل کر قومی ٹیم کو ملنے والا226واں ٹیسٹ کرکٹر ’’ محمد عباس ‘‘واقعی میں کرکٹ کا شہنشاہ بننے کے لائق تھا ۔