بدھ‬‮ ، 25 دسمبر‬‮ 2024 

’’نان اور حلوہ‘‘

datetime 28  مارچ‬‮  2017
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

آج کل والدین اپنی پڑھی لکھی بیروزگار اولاد کے حوالے سے شدید پریشانی کا شکار رہتے ہیں۔ پڑھے لکھے نوجوان معمولی کام کرنے کو عار سمجھتے ہیں اور ان کا مؤقف عموماََ یہی ہوتا ہے کہ’’ اتنا پڑھ کر یہ معمولی کام کروں؟ ایسا مجھ سے نہ ہو گا!‘‘محنت میں عظمت کوئی محاورہ نہیں بلکہ یہ ایک ایسی حقیقت ہے جسے جو کوئی پا لے وہی دنیا و آخرت میں کامیابی کا ثمر سمیٹتا ہے۔

دنیاوی محنت یقیناََ سہولیات کے حصول کیلئے اور دینی محنت اخروی کامیابی کی کنجی ہے۔آلس اور غرور و فخر میں غرق نوجوانوں کیلئے ایک سبق آموز واقعہ نـظر قارئین ہے جو یقیناََ آج کی جدید نسل کی سوچ بدلنے میں اہم کردار ادا کرے گا۔واقعہ کچھ یوں ہے کہ کسی گاؤں میں ایک نو جوان رہتا تھا. پڑھائی لکھائی جب ختم ہوئی تو والدین نے نوکری کے لئے دباؤ ڈالنا شروع کر دیا۔ اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان معمولی کام کو اپنی شان کے خلاف سمجھتا اور اسی طرح وہ کئی مہینے نوکری کی تلاش میں پھرتا رہا مگر معیار کے مطابق ملازمت حاصل نہ کر سکا۔.ایک دن تھک ہار کر خود سے بولا، رزق کا وعدہ تو اللہ نے کر رکھا ہے اور اسی کی ذات نے دینا ہے۔ اب میں نوکری کی تلاش میں نہیں پھروں گا بلکہ سکون سے زندگی گزاروں گا۔ اللہ رازق ہے تو گھر بیٹھے ہی رزق دے گا.اسی سوچ کے ساتھ یہ جوان صبح کی سیر کے لئے نکلا سیر کے بعد گاؤں کے قریب سے گزرنے والی نہر کے کنارے جا کر بیٹھ گیا.ابھی بیٹھے پندرہ منٹ ہی ہوئے تھے کہ دیکھا ایک پتہ نہر میں نیچے کی طرف بہتا ہوا آ رہا ہے۔۔ چھلانگ لگا کر پتہ پکڑا تو یہ کیا دیکھتا ہے کہ پتے پر دو نان اور ان پر حلوہ پڑا تھا.واہ خدایا! واقعی رزق تو کھانے والے تک خود پہنچتا ہے۔۔ حلوہ کھایا بہت لذیذ تھا. پیٹ بھر کر واپس گھر آ گیا.ظہر کے بعد پھر نہر کنارے چلا گیا.

ایک بار پھر حلوہ اور نان پتے پر آتے نظر آئے. اٹھائے اور کھا ليے.مغرب کی نماز کے بعد پھر نہر کنارے چلا گیا. اس بار بھی وہی ہوا.واہ! رات کے کھانے کا انتظام بھی ہو گیا.اب روزانہ فجر، ظہر اور مغرب کی نماز کے بعد نہر کنارے جا کر بیٹھ جاتا اور بلا ناغہ نان اور حلوہ مل جاتے. یہ سلسلہ کئی دنوں تک چلتا رہا۔ایک دن خیال آیا کہ دیکھوں کہ اللہ تعالٰی کس طرح یہ نان اور حلوہ بھجواتا ہے. اسی سوچ میں صبح کی نماز کے بعد نہر کی اوپری طرف چل پڑا. کچھ کلومیٹر ہی گیا ہو گا کہ دیکھا،

ایک بابا جی ہیں جو نان اور حلوہ لئے نہر کنارے بیٹھے ہیں۔قریب جا کر دیکھا تو بابا جی نان کے اندر حلوہ رکھتے اور پھر اس گرم گرم حلوے سے اپنی ٹانگ پر نکلے ایک پھوڑے کو ٹکور کرتے، پھر ایک پتے پر نان اور حلوہ رکھ کر نہر میں بہا دیتے.جوان کا دل ایک دم خراب ہونا شروع ہو گیا۔ ابکائیاں آنے لگیں کیا میں اتنے دنوں سے یہ حلوہ اور نان کھا رہا تھا؟بابا جی سے پوچھا

یہ ماجرا کیا ہے؟بابا جی بولے:کئی دنوں سے یہ پھوڑا نکلا ہوا تھا. جس کی وجہ سے بہت تکلیف تھی۔ حکیم کے پاس گیا تو حکیم نے مشورہ دیا کہ روزانہ دن میں تیں بار سوجی کے حلوے کو نان پر رکھ کر اس کی ٹکور کروں، سو میں فجر، ظہر اور مغرب کے بعد ادھر آ جاتا ہوں۔ نان اور حلوے کی ٹکور کے بعد نان اور حلوے کو پتے پر رکھ کر نہر میں بہا دیتا ہوں

تاکہ خراب ہونے کی بجائے چرند پرند اور مچھلیاں ہی کھا لیں.بے شک اللہ رازق ہے۔ رزق اللہ نے ہی دینا ہے، محنت اور غرور میں غرق کاہلی کے درمیان پھل کا فرق ہے.جو محنت کرتے ہیں انھیں پاک اور صاف رزق ملتا ہے۔ جو کاہلی اور غرور میں ڈوب کروقت گزارتے ہیں اور حالات کے سامنے ہتھیار ڈال دیتے ہیں، رزق تو انہیں بھی ملتا ہے مگر وہ رزق جس میں کراہت اور گندگی ہو۔

موضوعات:



کالم



کرسمس


رومن دور میں 25 دسمبر کو سورج کے دن (سن ڈے) کے طور…

طفیلی پودے‘ یتیم کیڑے

وہ 965ء میں پیدا ہوا‘ بصرہ علم اور ادب کا گہوارہ…

پاور آف ٹنگ

نیو یارک کی 33 ویں سٹریٹ پر چلتے چلتے مجھے ایک…

فری کوچنگ سنٹر

وہ مجھے باہر تک چھوڑنے آیا اور رخصت کرنے سے پہلے…

ہندوستان کا ایک پھیرا لگوا دیں

شاہ جہاں چوتھا مغل بادشاہ تھا‘ ہندوستان کی تاریخ…

شام میں کیا ہو رہا ہے؟

شام میں بشار الاسد کی حکومت کیوں ختم ہوئی؟ اس…

چھوٹی چھوٹی باتیں

اسلام آباد کے سیکٹر ایف ٹین میں فلیٹس کا ایک ٹاور…

26نومبر کی رات کیا ہوا؟

جنڈولہ ضلع ٹانک کی تحصیل ہے‘ 2007ء میں طالبان نے…

بے چارہ گنڈا پور

علی امین گنڈا پور کے ساتھ وہی سلوک ہو رہا ہے جو…

پیلا رنگ

ہم کمرے میں بیس لوگ تھے اور ہم سب حالات کا رونا…

ایک ہی بار

میں اسلام آباد میں ڈی چوک سے تین کلومیٹر کے فاصلے…