حضرت سعید ابن مسیب ؓ کے شاگرد ابن حرملہ اپنے دروازے پر کھڑے تھے کہ دیکھا کہ گلی میں ایک شخص جھومتا جھومتا لڑ کھڑاتا ہوا گزر رہا ہے۔ اس کے قریب گئے تو پتہ چلا کہ وہ شراب کے نشے میں بدمست ہے ابن حرملہ نے اس کا بازو تھا ما اپنے کمرے میں لائے اور دروازہ بند کر دیا تھوڑی دیر کے بعد ابن حرملہ حضرت سعید ابن مسیب ؓ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اس واقعہ کا تذکرہ کر کے ان سے پوچھا کہ اس آدمی کا کیا کرنا چاہیے؟
سعید ابن مسیب ؓ گو کہ احکام خداوندی کو جاری کرنے کے معاملے میں بہت سخت تھے لیکن انہیں یہ بات بھی پسند نہیں تھی کہ کسی مسلمان کی پردہ دری کی جائے اس لئے انہوں نے ابن حرملہ کو مشورہ دیا کہ اگر تم اس شرابی کو اپنے گھر میں چھپا سکتے ہو تو چھپائے رکھو ابن حرملہ واپس آئے تو شرابی ہوش میں آ چکا تھا جونہی اس کی نظر ابن حرملہ پر پڑی شرم سے پانی پانی ہو گیا زبان کو تالے لگ گئے اور ندامت سے سرجھکا کر ابن حرملہ کے سامنے کھڑا ہو گیا۔ابن حرملہ نے کہا کہ میرے بھائی تجھے شرم نہیں آتی اگر تو صبح نشہ کی حالت میں گرفتار ہو جاتا تو تجھ پر حد جاری ہو جاتی اور انتہائی رسوائی ہوتی تو ہمیشہ کے لئے مردود الشہادت ہو جاتا یعنی ساری زندگی تیری شہادت قبول نہیں ہوتی بلکہ اگر یہ کہوں کہ تو زندہ رہتے ہوئے مر جاتا توغلط نہ ہو گا۔ تو غور تو کر کہ وقتی سکون کے لئے جس جرم کا تو نے ارتکاب کیا تھا وہ تیری ساری زندگی کو برباد کر دیتا۔ میں نے تجھے اسی لئے چھپا لیا تھا کہ تیری پردہ دری نہ ہو اور تیری بنی بنائی عزت خاک میـں نہ مل جائے۔ ابن حرملہ کے یہ الفاظ نشتر بن کر شرابی کے دل و دماغ پر گر رہے تھے وہ کانپ اٹھا اور روتے ہوئے اس نے کہا کہ آج میں تمہیں گواہ بنا کر خدا سے یہ وعدہ کرتا ہوں کہ اب کبھی بھی شراب کو ہاتھ نہیں لگاؤں گا۔ اور ایک پاک باز انسان کی طرح زندگی گزاروں گا۔ تم نے میری پردہ پوشی کی ہے اللہ تعالیٰ قیامت کے دن تمہاری پردہ پوشی کرے گا۔ مسلمان مسلمان کے لئے آئینہ ہوتا ہے جو اس کے چہرے کا داغ تو اس کو دکھا دیتا ہے لیکن کسی کے چہرے کا داغ دوسرے کو نہیں دیکھاتا جو آدمی کسی کی پردہ دری کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے عیوب کا بھی پردہ فاش کر دیتا ہے۔