خراسان کا امیر شکار کی تگ و دو میں اپنے آدمیوں سے بچھڑ گیا۔ بس ایک خوشامدی مصاحب سائے کی طرح ساتھ لگا رہا اور بھاگ دوڑ کی زحمتیں اٹھاتا اس کا ہم رکاب رہا۔ رات سر پہ آئی تو کہیں پناہ لینے کا خیال آیا۔ اتفاق سے بستی کے جس دروازے پر پہنچا۔ وہ بالکل جاہل تھا، امیر خراسان نے خوشامدی مصاحب سے کہا۔ ”
دیکھو تم ہماری حیثیت صاحبِ خانہ سے چھپانا نہیں کیونکہ جب اس غریب کو یہ معلوم ہو گا کہ امیرِ خراسان اس کا مہمان ہو رہا ہے تو وہ اپنی خوش قسمتی پر پھولا نہ سمائے گا اور ہم محل واپس پہنچ کے اسے اپنی نوازشوں اور مہربانیوں سے نواز دیں گے”۔مصاحب نے جواب۔ ” بہت خوب جنابِ والا!”اس کے بعد اس نے جاہل دیہاتی کے دروازے پر دستک دی۔ اندر سے کسی نے دروازہ کھولے بغیر سوال کیا۔ ” کون صاحب؟ کیاکام ہے؟”خوشامدی مصاحب نے آواز لگائی۔ ” دروازہ کھول کیونکہ عزّت مآب، فضلیت ایاب، عالم پناہ، فلکِ دست گاہ سرکارِ بندگاں، آقائے آقایاں، امیرِ خراسان ، حاجی مرزا حسن علی خاں مدظلہ، ودام اقبالہ، تشریف لائے ہیں اور تجھے اپنی مہمان نوازی کا شرف بخشنا چاہتے ہیں؟”غریب دیہاتی یہ کہہ کر دروازے سے ہٹ گیا۔ ” جناب افسوس معاف فرمائیے گا۔ میرے اس چھوٹے سے گھر میں اتنی گنجائش کہاں کے اتنے بہت سارے آدمی سماجائیں، کسی اور کا گھر دیکھیے”۔