آل ساسان پر جب وقت پڑا اور وہ اِدھر اُدھر پناہ کی خاطر بھاگنے لگے تو اُن کے ایک خوش اطولر اور نیک شخص کو راہ زنوں نے پناہ دی۔ اس شخص کا قیمتی سامان ساتھ تھا۔ اُسے ذرا سی دیر کے لیے خیال آیا کہ کہیں یہ ڈاکو اس کے سامان کی تلاشی لے کر سب کچھ نہ چھین لیں لیکن ایک ہفتہ گزار دینے کے بعد جب ڈاکوؤں کے سردار نے کہا کہ ” اب راستہ صاف ہے اور وہ چین چلا جائے ! ” تو اُسے ذرا سکون ملا۔
ڈاکوؤں کے سردار نے اپنے ساتھیوں کے درمیان اس خوش اطوار معزز مہمان کو لے کر چین کی سرحد تک پہنچا دیا۔ اس موقع پر ساسانی نوجوان جذبات کی شدّت سے مغلوب ہو گیا، ڈاکوؤں کے سردار سے بھّرائی ہوئی آواز میں کہا۔ ” میں آپ کا یہ احسان زندگی بھر نہ بھُولوں گا!” پھر اُس نے اپنے قیمتی سامان کی گھٹری کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔ ” اس میں نہایت قیمتی چیزیں بندھی ہوئی ہیں اسے کھول لیں اور اس میں سے جو چیزیں بھی پسند آ جائیں ، میری طرف سے قبول فرما لیں”
ڈاکوؤں کا سردار بھی آزردہ تھا، پھیکی مسکراہٹ سے جواب دیا۔ ” اے آلِ ساسان کے نیک انسان! ہمیں معلوم ہے کہ تمھاری اس گھٹری میں کتنی قیمتی چیزیں بندھی ہوئی ہیں، لیکن ہم نے اپنے جملہ ساتھیوں کو منع کر دیا تھا کہ تمھاری تلاشی نہ لی جائے۔ تم آلِ ساسان کے نہایت نیک اور مخیر نوجوان ہو، اگر کوئی شخص اپنے جسم پر شہد مل لے تو شہد کی مکھیاں اُسے ڈنک نہیں مارتیں۔ تم نے اپنے جسم پر خوش اطواری اور نیکی کا شہد مل رکھا ہے۔ پھر ہم کس طرح ڈنک مار سکتے ہیں!”
آل ساسان
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں