رات کا وقت تھا ماں نے پانی مانگا۔ مٹی کے کوزے میں پانی لے کر ابھی ماں کی چار پائی کے پاس پہنچا ہی تھا کہ ماں کی آنکھ لگ گئی۔ اب کیا کرتا۔ سوچا کہ ماں کو بیدار کر کے پانی پلا دوں پھر خیال آیا کہ اس کی نیند خراب ہو گی کتنی بے چینی کے بعد تو اس کی آنکھ لگی ہے۔ سردی سخت تھی باہر برف باری ہو رہی تھی میرے بدن پر کپکپی طاری ہو گئی دل میں آیا کہ بستر میں جا کر سو جاؤں مگر پھر خیال آیا کہ شاید ماں دوبارہ پانی مانگے
اور میں وقت پر اس کے پاس نہ پہنچ سکوں۔اسی ادھیڑ بن میں کھڑا رہا سردی اور نیند دونوں کا غلبہ تھا مگر میں نے اپنے نفس پر قابو رکھا۔ ہتھیلی پر پانی کا کوزہ تھا اور میں ماں کی چاپائی کے پاس کھڑا تھا یہاں تک کہ موذن نے صبح کی اذان دے دی۔ اذان کی آواز سن کر ماں بیدار ہوئی اور اس نے دیکھا کہ میں پانی لئے کھڑا ہوں۔ کہا بیٹے! تو نے مجھے جگا کیوں نہیں لیامیں نے عرض کیا ماں! تیری طبیعت خراب تھی میں نے سوچا کہ اگر جگا دوں گا تو کہیں تجھے اور زیادہ تکلیف نہ ہو جائے سویا اس لئے نہیں کہ نہ جانے کب تو پانی مانگے اور میری آنکھ نہ کھلے۔ میرا یہ عمل دیکھ کر ماں بے حد خوش ہوئی اس نے دست دعا دراز کیا۔ بار الہٰی ! بایزید نے میرا دل ٹھنڈا کیا ہے تو اس کے قلب کو اپنی معرفت کے انوار سے منور فرما دے۔سلطان بایزید بسطامی رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا کہ نہ جانے ماں کی اس دعا اور میری اس خدمت میں کیا تاثیر تھی کہ چشم زدن میں برسوں کا سفر طے ہو گیا اور میرا قلب معرفت کے انوار سے منور ہو سلطان بایزید بسطامی رحمتہ اللہ علیہ نے حاضرین سے فرمایا ” لوگو! تم مجھے پوچھتے ہو کہ بایزید تجھے معرفت کی یہ دولت کیسے ملی تو سن لو کہ اس کا ایک ہی راستہ ہے اللہ کے حقوق ادا کرو اور اللہ کے بندوں کے حقوق ادا کرو۔
منزل کھنچ کر خود تمہارے سامنے آ جائے گی۔ یاد رکھو! اللہ و رسول ﷺ کے بعد سب سے بڑا حق والدین کا ہے۔