ایک بارحضرت خواجہ معین الدین چشتی رحمۃ اللہ علیہ اور حضرت شیخ اوحد الدین کرمانی کرمان کی سیر کر رہے تھے، وہاں ہم نے ایک بوڑھے درویش کو دیکھا جو بہت زیادہ بزرگ اور اللہ عز و جل کی یاد میں ڈوبا ہوا تھا۔ میں نے اسے سلام کیا، معلوم ہوا کہ گویا اس کے جسم میں گوشت اور ہڈیوں کا نام و نشان نہیں ہے بل کہ صرف روح ہی روح ہے۔ وہ بزرگ بہت ہی کم گو تھے، میرے دل میں خیال آیا کہ
اس بزرگ سے اس کے حالات پوچھوں کہ آپ اس قدر کم زور اور لاغر کیوں ہو گئے ہیں ؟اس روشن ضمیر درویش نے میرا ارادہ بھانپ لیا اور میرے پوچھنے سے پہلے ہی اس نے فرمایا:’’ اے درویش ایک دن میں اپنے دوست کے ساتھ ایک قبرستان سے گذرا ایک قبر کے پاس ہم تھوڑی دیر رکے اتفاق سے مجھے کسی بات پر ہنسی آ گئی اور میں قہقہہ مار مار کر ہنسنے لگا۔ قبر سے آواز آئی، اے غافل انسان ! جسے قبر جیسے مقام میں جانا ہے، اور ملک الموت جس کے حریف ہیں اور زمین کے نیچے جس کے غم خوار سانپ اور بچھو ہیں اسے ہنسی سے کیا تعلق؟ یہ درد بھرتی اور عبرت آموز آواز سن کر میں نے میرے دوست کا ہاتھ چھوڑا اور اس سے رخصت ہو کر نماز میں مصروف ہو گیا۔ اس غیبی آواز نے میرے دل میں قبر کی جو مصیبت گھر کر دی ہے اس کے سبب میرا بدن پگھلنے لگا، اس واقعہ کو ہوئے چالیس سال کی مدت گذر گئی ہے میں نے شرمندگی اور ندامت کی وجہ سے نہ تو آسمان کی طرف نگاہ اٹھائی ہے اور نہ ہی اس عرصہ میں مسکرایا ہوں۔ ڈرتا ہوں کہ قیامت کے دن خدائے قدیر و جبار کو کیا منہ دکھاؤں گا؟‘‘۔