امام یوسفؒ نے اپنی طالب علمی کا زمانہ کس طرح گزارا۔ خود بیان فرمایا ہے وہ فرماتے ہیں:۔
’’میرے والد ابراہیم بن حبیب کی وفات اس وقت ہوئی جب کہ میں والدہ کی گود میں تھا (جب میں بڑا ہوا) تو میری والدہ نے مجھے ایک دھوبی کے سپرد کر دیا۔ میں دھوبی کو چھوڑ کر حلقہ امام ابوحنیفہؒ میں پہنچ جاتا اور ان کی باتیں سنا کرتا تھا۔ میری والدہ آتیں اور میرا ہاتھ پکڑ کر دھوبی کے یہاں لے جاتیں۔
امام ابوحنیفہؒ میری حاضری اور حرص علم دیکھ کر میری طرف کافی توجہ فرمایا کرتے تھے۔ جب یہ معاملہ دراز ہو گیا۔ اور میری ماں پر گراں گزرا تو انہوں نے امام ابوحنیفہؒ سے کہا کہ اس بچہ کا تمہارے علاوہ اور کوئی استاد نہیں ہے۔ یہ یتیم ہے اس کے پاس کچھ نہیں ہے میں اسے اپنے چرخہ کی کمائی سے کھلاتی ہوں اور امید کرتی ہوں کہ یہ کچھ کمائے تاکہ اپنی ضروریات پوری کر لے۔امام ابوحنیفہؒ نے فرمایا کہ:۔اے رعنا! اسے حکم کرو کہ یہ تعلیم حاصل کرے یہ فالودہ پستہ کے تیل کے ساتھ کھائے گا۔امام ابو یوسفؒ کہتے ہیں کہ میری ماں نے امام صاحبؒ سے کہا:۔اے بڈھے! تیری عقل جا چکی ہے (یعنی یہ بات ناممکن ہے)(امام ابو یوسفؒ کہتے ہیں کہ) پھر اللہ تعالیٰ نے مجھے علم سے نفع دیا یہاں تک کہ مجھے قاضی بنا دیا گیا میری مجلس ہارون الرشید کے ساتھ ہوتی تھی اور اس کی دسترخوان پر اس کے ساتھ کھانا کھاتا تھا۔ ایک دن ہارون الرشید کے پاس فالودہ آیا تو ہارون الرشید نے مجھ سے کہا کہ :۔کھائیے! اس طرح کی چیز ہم لوگوں کیلئے روزانہ نہیں بنتی ہے۔میں نے کہا، کونسا کھانا؟ اس نے کہا کہیہ پستہ کے تیل میں بنا ہوا فالودہ ہے۔اس پر میں ہنس پڑا۔ ہارون الرشید نے مجھ سے پوچھا کیوں ہنسے؟ میں نے کہا خیریت ہی ہے۔ جب ہارون نے اصرار کیا
تو میں نے شروع سے اخیر تک سارا قصہ سنا دیا۔اس پر ہارون متعجب ہوا اور کہنے لگا۔’’علم اٹھتا جا رہا ہے حالانکہ وہ دین اور دنیا دونوں میں نافع ہے‘‘۔امام ابوحنیفہؒ کے لئے دعائے رحمت کی اور کہنے لگا ’’وہ نظر عقل سے دیکھتے تھے اور پھرایسی چیزیں دیکھ جاتے تھے جو اس ظاہری نظر سے نہیں دیکھی جا سکتیں‘‘۔