ہفتہ‬‮ ، 21 جون‬‮ 2025 

دنیاکاانوکھاگاﺅں جہاں عورت کی حکمرانی ہے

datetime 24  جون‬‮  2016
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

بے چارے، محکوم، بے بس، عورت کے حکم کے پابند مرد!پریشان نہ ہوں۔ ابھی عورت کی حکم رانی اور برتری  ایک قصبے تک ہی محدود ہے۔ وہاں گھریلو امور، مذہب، معیشت اور سماج سے متعلق ہر قسم کا اختیار عورت کے پاس ہے۔ اس راج پاٹ میں مردوں کی حیثیت اور ان کا اثر تسلیم نہیں کیا جاتا۔ انہیں وہی کرنا ہوتا ہے، جو عورت چاہتی ہے۔ دنیا کے ترقی یافتہ ملکوں میں مرد اور عورت کے درمیان برابری کا چرچا تو کیا جاتا ہے، لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے۔ وہاں بھی گھر اور باہر برتری مرد ہی کی ہے۔دنیا کے ہر خطے میں مرد اپنی طاقت، دانائی اور سوجھ بوجھ میں عورت سے بڑھ کر ہونے کا گھمنڈ لیے کسی نہ کسی شکل میں عورتوں کا استحصال کررہے ہیں۔ اگر دنیا بھر کی خواتین برازیلی قصبے کی عورتوں کا راستہ اختیار کر لیں تو عجیب اور دل چسپ صورت حال پیدا ہو جائے گی۔ خیر، اتنے فکرمند اور سنجیدہ بھی نہ ہوں۔ یہ بھارت اور بنگلہ دیش کے بیچ سرحد پر واقع مالے لونگ نامی ایک گاؤں سیاحت کی دنیا میں ’’ خدا کے باغ‘‘ کے نام سے معروف ہے۔ اس کی وجہ اگرچہ یہاں کے چپے چپے میں چھپا قدرتی حسن ہے تاہم عورتوں کیلئے بھی یہ گاؤں زمین پر جنت سے کم نہیں ہے۔ اس کی وجہ یہاں کا نظام ہے جس میں عورتوں کو گھر کے سربراہ کی حیثیت حاصل ہوتی ہے اور مرد ان کی ملکیت ہوتے ہیں۔ گاؤں میں کل پانچ سو کے قریب افراد رہتے ہیں اور ان کا تعلق خاسی قبیلے سے ہے۔ خاسی قبیلہ دنیا کے ان چند گنتی کے قبیلوں میں سے ہے جہاں کا باوا آدم ہی نرالا ہے اور عورتیں گھر کی سربراہ اور مرد انکے زیر نگیں ہوتے ہیں۔معاشرے میں ایک غیر معمولی کردار کی بدولت یہاں کی عورتوں، کم سن بچیوں میں بلا کا اعتمادپایا جاتا ہے۔ یہ اعتماد انہیں معاشرے میں قبول کئے جانے کا احساس فراہم کرتا ہے۔ خاسی قبیلے کا رواج ہے کہ خاندان کی سب سے چھوٹی لڑکی تمام دولت اور جائیداد کی مالک بنتی ہے جبکہ ماں کا نام بچوں کے نام کے ساتھ لگایا جاتا ہے۔ یہاں ماں باپ کے رشتے طے کرنے کا رواج موجود نہیں ہے ۔ عورتوں کو اپنا جیون ساتھی خود منتخب کرنے کی اجازت ہے۔ وہ چاہیں تو شادی کے بعد ازدواجی بندھن کے خاتمے یعنی طلاق کا فیصلہ بھی کرسکتی ہیں اور اگر وہ عمر بھر شادی نہ کرنے کا تہیہ کرلیں تو بھی اس میں کوئی عیب نہیں سمجھا جاتا ہے۔اس علاقے کی عوام کا پیشہ کھیتی باڑی ہے، بڑی عمر کے مردو عورتیں کھیتوں میں کام کرتے ہیں جبکہ چھوٹی بچیاں گھروں پر اپنے بہن بھائی سنبھالتی ہیں۔ اس عمر کے بچوں کے چہرے پر اطمینان بطور خاص دکھائی دیتا ہے، لیکن لڑکوں کے چہرے سے اس اطمینان کی جھلک اس وقت مفقود ہونے لگتی ہے جب انہیں گاؤں میں طاقت کے نرالے اور ان کے مطابق بگڑے ہوئے توازن کا احساس ہوتا ہے۔ یہ بالکل وہی احساس ہوتا ہے جو کہ عام معاشروں میں کم سن بچیاں محسوس کرتی ہیں۔ حال ہی میں خاسی قبیلے کو اس وقت شہرت ملی ہے جب ایک فوٹوگرافر نے یہاں کی بچیوں کی تصاویر پر مبنی ایک سیریز تیار کی۔ اس سیریز کا مقصد یہاں کی عورت کو حاصل حقوق کو بیان کرنا ہے۔ اس سیریزکو خاسی ثقافت کی تفصیلات فراہم نہ کرنے کے سبب تنقید کا نشانہ بھی بنایا جارہا ہے تاہم ان کی مقبولیت کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ دنیا کے بیشتر بڑے بڑے ممالک میں اس تصویری سلسلے کی نمائش ہوچکی ہے۔ برلن سے تعلق رکھنے والی کیرولین کروپل کہتی ہیں کہ خاسی قبیلہ کی ثقافت و روایات ان کا موضوع نہیں بلکہ وہ دنیا کی عورتوں کو جو پیغام دینا چاہتی ہیں، وہی اس سیریز کے ذریعے پیش کیا گیا ہے۔

آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں


کالم



کنفیوژن


وراثت میں اسے پانچ لاکھ 18 ہزار چارسو طلائی سکے…

دیوار چین سے

میں دیوار چین پر دوسری مرتبہ آیا‘ 2006ء میں پہلی…

شیان میں آخری دن

شیان کی فصیل (سٹی وال) عالمی ورثے میں شامل نہیں…

شیان کی قدیم مسجد

ہوکنگ پیلس چینی سٹائل کی عمارتوں کا وسیع کمپلیکس…

2200سال بعد

شیان بیجنگ سے ایک ہزار اسی کلومیٹر کے فاصلے پر…

ٹیرا کوٹا واریئرز

اس کا نام چن شی ہونگ تھا اوروہ تیرہ سال کی عمر…

گردش اور دھبے

وہ گائوں میں وصولی کیلئے آیا تھا‘ اس کی کمپنی…

حقیقتیں

پرورش ماں نے آٹھ بچے پال پوس کر جوان کئے لیکن…

نوے فیصد

’’تھینک یو گاڈ‘‘ سرگوشی آواز میں تبدیل ہو گئی…

گوٹ مِلک

’’تم مزید چارسو روپے ڈال کر پوری بکری خرید سکتے…

نیوٹن

’’میں جاننا چاہتا تھا‘ میں اصل میں کون ہوں‘…