ہفتہ‬‮ ، 16 ‬‮نومبر‬‮ 2024 

نیب ترامیم سے ٹرائل اتنا مشکل بنا دیا گیا کہ کرپشن ثابت نہیں ہوسکتی، جسٹس اعجازالاحسن

datetime 14  ‬‮نومبر‬‮  2022
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

اسلام آباد (این این آئی)قومی احتساب بیورو (نیب) کے قوانین میں ترامیم کے خلاف پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کی درخواست پر سماعت کے دوران جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دئیے ہیں کہ نیب ترامیم سے ٹرائل اتنا مشکل بنا دیا گیا کہ کرپشن ثابت نہیں ہو سکتی۔پیر کو چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں

جسٹس اعجازالاحسن اور جسٹس منصور علی شاہ پر مشتمل سپریم کورٹ کے تین رکنی خصوصی بینچ نے نیب ترامیم کے خلاف دائر درخواست پر سماعت کی۔نیب ترامیم کے خلاف عمران خان کی درخواست پر عدالت عظمیٰ میں سماعت کے دوران پی ٹی آئی کے وکیل خواجہ حارث نے حالیہ نیب ترامیم کے بنیادی انسانی حقوق سے متصادم ہونے پر دلائل دئیے، انہوں نے مؤقف اپنایا کہ تمام نیب کیسز احتساب عدالتوں کو بھیجے تو کئی افراد تمام الزامات سے بری ہوئے، کرپٹ افراد کے بری ہونے سے عوام کے بنیادی حقوق براہ راست متاثر ہوئے ہیں۔اس موقع پر چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال نے عمران خان کے وکیل سے مکالمہ کیا کہ لگتا ہے آپ ہر ویک اینڈ کے بعد کیس میں ایک نیا نکتہ نکال لیتے ہیں۔جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ نیب ترامیم سے براہ راست بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی کیسے ہو رہی ہے؟ کیا بجٹ پیش ہونے پر ہر دوسرا شخص عدالت آسکتا ہے کہ یہ غلط بنایا گیا؟جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ ایف بی آر کسی کو ٹیکس چھوٹ دے تو کیا یہ بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی میں آئیگا؟ چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ قانون کا ایک بینچ مارک ہے جس سے نیچے لاقانونیت ہوتی ہے، اس بات پر ہم سب آمادہ ہیں کہ احتساب کا قانون ہونا چاہیے۔چیف جسٹس نے کہا کہ اقوام متحدہ کا انسداد کرپشن کنونشن بہت واضح ہے، کیا ہم اقوام متحدہ کنونشنز کو اپنے قوانین میں منتقل کر سکتے ہیں؟

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ اقوام متحدہ کا معذور افراد پر کنونشن آئین پاکستان کا حصہ نہیں ہے، کیا عدالت پارلیمنٹ کو عالمی کنونشنز پر قانون سازی کا حکم دینا شروع کر دے؟ اس طرح تو عالمی کنونشن ہی آئین پاکستان کہلانے لگیں گے، عدالت ایگزیکٹو کے بنائے قوانین میں تب مداخلت کر سکتی ہے جب وہ آئین سے متصادم ہوں۔

اس موقع پر جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ عوامی پیسے پر کرپشن ہونے سے عوام کے ہی حقوق متاثر ہوں گے، وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ ایف آئی اے کے کئی کیسز بغیر کسی قانونی طریقہ کار نیب کو منتقل ہوگئے۔جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ قوانین کو بین الاقوامی معیار کے مطابق ہی ہونا ہوتا ہے، دنیا کا کوئی ایسا ملک نہیں جو کرپشن کا حامی ہو،

مجھے پرانے نیب قانون میں ترامیم کی کوئی ٹھوس وجہ نہیں ملی، قانون کا معیار مقرر کرنا عدالت کا کام ہے۔جسٹس اعجاز الااحسن نے ریمارکس دئیے کہ حضرت عمرؓکے زمانے میں ایک اضافی بھینس رکھنے پر بھی احتساب ہوتا تھا، جس ملک میں کرپشن ہوگی اس کا بیڑا غرق ہوگا، کرپشن کو اتنا دردناک جرم بنانا چاہیے کہ کوئی اسے کرنے کی ہمت نہ کرے،

ہو سکتا ہے یہی ثابت ہو کہ نیب ترامیم بدنیتی اور مخصوص افراد کو فائدہ پہنچانے کے لیے کی گئی ہیں۔جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ میں اس بات سے اتفاق نہیں کرتا کہ عدالت قانونی معیار مقرر کرتی ہے، قانونی معیار عدالت نہیں آئین طے کرتا ہے، اگر کرپشن پر قوانین موجود ہی نہ ہوں تو عدالت کہہ سکتی ہے کہ بنائیں، آخر میں قانون پارلیمنٹ نے ہی بنانا ہے،

یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ نیب ترامیم کالعدم ہونے سے پرانا قانون ازخود نافذ ہو جائے؟عمران خان کے وکیل نے کہا کہ موجودہ نیب ترامیم سے کرپٹ ملزمان بری ہو کر مزے سے گھروں میں بیٹھے ہیں، جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ یہاں تو لوگ آئین کو سبوتاژ کر کے بھی گھروں میں بیٹھے ہیں، کیا نیب ترامیم سے کوئی ثابت شدہ کرپٹ مجرم بری ہوا ہے؟

جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیے کہ نیب ترامیم سے اب پیسے معاف کر کے کرپشن چارجز ختم کیے جارہے ہیں، جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ جب ٹرائل کے بعد ثابت ہوا ہی نہیں کہ ایک شخص کرپٹ ہے یا نہیں تو بنیادی حقوق کیسے متاثر ہوگئے؟ ۔نجی ٹی وی کے مطابق جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ نیب ترامیم کے بعد ٹرائل اتنا مشکل بنا دیا گیا ہے کہ کرپشن ثابت ہو ہی نہیں سکتی۔

اس کے ساتھ ہی عدالت عظمیٰ نے عمران خان کے وکیل کو 17 نومبر تک دلائل مکمل کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے کیس کی سماعت (آج) منگل تک ملتوی کر دی۔خیال رہے کہ گزشتہ سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے تھے کہ عدلیہ ایگزیکٹو کا اختیار استعمال نہیں کر سکتی، عدلیہ ایگزیکٹو کے اختیار پر تجاوز نہیں کر سکتی، عدالت ایگزیکٹو کو اپنی ذمہ داری پوری کرنے کا کہہ سکتی ہے مگر ایگزیکٹو کا اختیار استعمال نہیں کر سکتی۔چیف جسٹس نے کہا تھا کہ ازخود نوٹس کا اختیار بڑے احتیاط سے استعمال کرنا پڑتا ہے، اگر نیب ترامیم بنیادی حقوق سے تصادم پر کالعدم ہو بھی جائیں تو پرانا قانون کیسے بحال ہوگا۔

موضوعات:



کالم



بس وکٹ نہیں چھوڑنی


ویسٹ انڈیز کے سر گارفیلڈ سوبرز کرکٹ کی چار سو…

23 سال

قائداعظم محمد علی جناح 1930ء میں ہندوستانی مسلمانوں…

پاکستان کب ٹھیک ہو گا؟

’’پاکستان کب ٹھیک ہوگا‘‘ اس کے چہرے پر تشویش…

ٹھیک ہو جائے گا

اسلام آباد کے بلیو ایریا میں درجنوں اونچی عمارتیں…

دوبئی کا دوسرا پیغام

جولائی 2024ء میں بنگلہ دیش میں طالب علموں کی تحریک…

دوبئی کاپاکستان کے نام پیغام

شیخ محمد بن راشد المختوم نے جب دوبئی ڈویلپ کرنا…

آرٹ آف لیونگ

’’ہمارے دادا ہمیں سیب کے باغ میں لے جاتے تھے‘…

عمران خان ہماری جان

’’آپ ہمارے خان کے خلاف کیوں ہیں؟‘‘ وہ مسکرا…

عزت کو ترستا ہوا معاشرہ

اسلام آباد میں کرسٹیز کیفے کے نام سے ڈونٹس شاپ…

کنفیوژن

وراثت میں اسے پانچ لاکھ 18 ہزار چارسو طلائی سکے…

ملک کا واحد سیاست دان

میاں نواز شریف 2018ء کے الیکشن کے بعد خاموش ہو کر…