پیر‬‮ ، 15 دسمبر‬‮ 2025 

امریکی عدالت کا پاکستانی نژاد امریکی شہری عدنان سید کو رہا کرنے کا حکم

datetime 20  ستمبر‬‮  2022 |

واشنگٹن(این این آئی)عدنان سید کو سن 1999 میں ایک امریکی پارک میں گرل فرینڈ کو قتل کرنے کے جرم میں سزا سنائی گئی تھی۔ تاہم بیس برس بعد ایک جج نے ان کی سزا کو غلط بتاتے ہوئے انہیں فوری طور پر رہا کرنے کا حکم دیا ہے۔میڈیارپورٹس کے مطابق امریکی ریاست میری لینڈ کے ایک جج نے پاکستانی نژاد امریکی عدنان سید

کی اس سزا کو کالعدم قرار دے دیا، جو انہیں اپنی گرل فرینڈ کے قتل کے لیے دی گئی تھی۔ وہ گزشتہ 20 برسوں سے بھی زیادہ وقت سے جیل میں قید تھے۔تازہ فیصلے میں کہا گیا کہ اس کیس سے متعلق دو دیگر ممکنہ مشتبہ افراد بھی تھے، جن کا مقدمے کی سماعت کے دوران دفاعی وکلا سے انکشاف تک نہیں کیا گیا تھا۔امریکہ میں ایک پوڈ کاسٹ “سیریل” میں اس کے کیس کو قسط در قسط پیش کیا گیا، جس سے عدنان سید کا کیس نہ صرف اجاگر ہوا بلکہ قومی توجہ بھی حاصل کر لی تھی۔ اسی سیریل کی وجہ سے ان کے اصل مجرم ہونے کے بارے میں شکوک و شبہات پیدا ہوئے۔عدنان سید پر الزام تھا کہ انہوں نے سن 1999 میں اپنی سابق گرل فرینڈ ہی من لی کو بالٹی مور کے ایک پارک میں قتل کر دیا تھا۔ لی کی عمر اس وقت 18 برس کی تھی جب گلا گھونٹنے کے بعد جائے وقوعہ پر ہی انہیں دفن کر دیا گیا تھا۔ عدنان سید اس الزام میں 20 سال سے بھی زیادہ کی قید کی سزا کاٹ چکے ہیں، جنہیں سن 2000 میں سزا سنائی گئی تھی۔تاہم 42 سالہ سید اپنے اس موقف پر ہمیشہ قائم رہے کہ وہ بے قصور ہیں۔ اس سلسلے میں انہوں نے متعدد اپیلیں بھی دائر کیں، جن کو مسترد کر دیا گیا، یہاں تک کہ سن 2019 میں انہوں نے امریکی سپریم کورٹ سے بھی رجوع کیا تاہم اس میں بھی ناکام رہے۔عدنان سید پر الزام تھا کہ انہوں نے سن 1999 میں اپنی سابق گرل فرینڈ ہی من لی کو بالٹی مور کے ایک پارک میں قتل کر دیا تھا۔

لی کی عمر اس وقت 18 برس کی تھی جب گلا گھونٹنے کے بعد جائے وقوعہ پر ہی انہیں دفن کر دیا گیا تھاتصویر: Jerry Jackson/dpa/picture allianceتاہم گزشتہ روز بالٹی مور سٹی سرکٹ کورٹ کی جج میلیزا فن نے “عدل اور انصاف کے مفاد میں ” سید کو فوری طور پر انہیں رہا کرنے کا حکم دیا۔ریاست میری لینڈ میں اٹارنی برائے بالٹی مور مارلن موسبی نے گزشتہ ہفتے عدالت سے استدعا کی تھی کہ جب تک اس کیس کی مزید تفتیش مکمل نہیں کر لی جاتی اس وقت تک سید کی سزا کو ختم کر دیا جائے۔ اطلاعات کے مطابق حکومتی استغاثہ کی جانب سے یہ کافی حیران کن قدم تھا۔

اس فیصلے کو اس لیے درست بتایا گیا کیونکہ اس کیس کے دو دیگر ممکنہ مشتبہ افراد کے بارے میں نئی معلومات کا انکشاف ہوا تھا تاہم، مقدمے کی سماعت کے دوران دفاع کو اس بارے میں بتایا نہیں گیا تھا۔اسسٹنٹ اسٹیٹ اٹارنی بیکی فیلڈمین نے جج کے سامنے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ موجودہ تفتیش کے دوران سید کو مجرم ٹھہرانے کے لیے جس سیل فون ڈیٹا کا استعمال کیا گیا تھا، وہ بھی ناقابل اعتبار پایا گیا ہے۔فیلڈمین نے کہا، “ریاست نے اپنے اعتقاد کی سالمیت پر اعتماد کھو دیا ہے۔ ہمیں یہ یقینی بنانا ہو گا کہ ہم اس کے لیے درست شخص کو جوابدہ ٹھہرائیں۔” ان کا مزید کہنا تھا، “ہم اپنی تحقیقات جاری رکھیں گے۔ لی خاندان کو انصاف دلانے کے لیے ہم ہر ممکن کوشش کریں گے۔استغاثہ کو اب اس سلسلے میں نئے الزامات عائد کرنے یا مقدمہ خارج کرنے کے لیے 30 دن کی مہلت دی گئی ہے۔

موضوعات:

آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں


کالم



اسے بھی اٹھا لیں


یہ 18 اکتوبر2020ء کی بات ہے‘ مریم نواز اور کیپٹن…

جج کا بیٹا

اسلام آباد میں یکم دسمبر کی رات ایک انتہائی دل…

عمران خان اور گاماں پہلوان

گاماں پہلوان پنجاب کا ایک لیجنڈری کردار تھا‘…

نوٹیفکیشن میں تاخیر کی پانچ وجوہات

میں نریندر مودی کو پاکستان کا سب سے بڑا محسن سمجھتا…

چیف آف ڈیفنس فورسز

یہ کہانی حمود الرحمن کمیشن سے شروع ہوئی ‘ سانحہ…

فیلڈ مارشل کا نوٹی فکیشن

اسلام آباد کے سرینا ہوٹل میں 2008ء میں شادی کا ایک…

جنرل فیض حمید کے کارنامے(آخری حصہ)

جنرل فیض حمید اور عمران خان کا منصوبہ بہت کلیئر…

جنرل فیض حمید کے کارنامے(چوتھا حصہ)

عمران خان نے 25 مئی 2022ء کو لانگ مارچ کا اعلان کر…

جنرل فیض حمید کے کارنامے(تیسرا حصہ)

ابصار عالم کو 20اپریل 2021ء کو گولی لگی تھی‘ اللہ…

جنرل فیض حمید کے کارنامے(دوسرا حصہ)

عمران خان میاں نواز شریف کو لندن نہیں بھجوانا…

جنرل فیض حمید کے کارنامے

ارشد ملک سیشن جج تھے‘ یہ 2018ء میں احتساب عدالت…