اسلام آباد (این این آئی)وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے رواں سال 20 کروڑ سے زائد ٹیکس دینے کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ ملک کو ڈیفالٹ سے بچانے کیلئے آئی ایم ایف پروگرام دوبارہ شروع ہونا ضروری تھا، عمران خان ملک کو دیوالیہ کی نہج پر لیکر آئے تھے، ملک اب بہتری
کی طرف جائیگا،پچھلے 10 سے 20 سال میں ایسا کسان دوست بجٹ نہیں آیا، کسانوں کو پیسہ سبسڈی سمجھ کر نہیں سرمایہ کاری سمجھ کردیا ہے،بجٹ کے حوالے سے ارکان پارلیمنٹ نے مفید مشورے دئیے ہیں، ارکان کی تجاویز کو شامل کرنے سے بجٹ میں کچھ تبدیلیاں آئی ہیں، پونے چار سال میں 71 سال کے برابر قرض لیا گیا،پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بڑھا کر مشکل فیصلے کیے، ہم خوردنی تیل اور گندم میں خودکفیل ہوں گے،رواں مالی سال کرنٹ اکائونٹ خسارہ 17 ارب ڈالر تک ہوگا،چھوٹے تاجروں سے فکس ٹیکس وصول کیا جائے گا ،15 کروڑ سے زائد آمدن والی کمپنی پر ایک فیصد سْپر ٹیکس لگے گا، 20 کروڑ سے زائد آمدن پر 2 فیصد سْپر ٹیکس لگے گا، شوگر، سیمنٹ، ٹیکسٹائل سمیت 13 شعبوں پر 10 فیصد سْپر ٹیکس لگے گا، سْپر ٹیکس ایک مرتبہ وصول کیا جائے گا، ملک کو ڈیفالٹ سے بچانے کیلئے کوئی قیمت تو ادا کرنی پڑیگی پاکستان اب کہیں ڈیفالٹ کی جانب نہیں ترقی کی جانب جائیگا ۔جمعہ کو وزیر خزانہ مفتاح اسمٰعیل نے بجٹ پر بحث سمیٹنے کیلئے بلائے گئے قومی اسمبلی کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ملک اب ڈیفالٹ کے راستے پر نہیں ہے کیونکہ یہ ترقی کی راہ پر گامزن ہو چکا ہے۔وفاقی وزیر نے پی ٹی آئی حکومت پر ملک کو دیوالیہ کے دہانے پر لانے کا الزام لگایا اور کہا کہ ہم نے ملک کو ڈیفالٹ ہونے سے بچایا ہے۔
انہوں نے کہا کہ میں قوم کو یہ خوشخبری دینا چاہتا ہوں کہ ملک اب ڈیفالٹ کی راہ پر نہیں بلکہ ترقی کی راہ پر گامزن ہے۔مفتاح اسمٰعیل نے کہا کہ سینیٹ اور قومی اسمبلی کے سابقہ اجلاسوں کے دوران اراکین اسمبلی کی جانب سے دی گئی زیادہ تر سفارشات کو بجٹ میں شامل کر لیا گیا ہے۔انہوں نے بجٹ کو کسان دوست قرار دیتے ہوئے اعلان کیا کہ کاٹن کیکس(کھل) پر سیلز ٹیکس ختم کر دیا گیا ہے۔انہوںنے کہاکہ میرا نہیں خیال کہ پچھلے 10 سے
20 سالوں میں اس سے زیادہ کسان دوست بجٹ پیش کیا گیا ہے جو موجودہ مخلوط حکومت کی اقدار کی عکاسی کرتا ہے۔وزیر خزانہ نے کہا کہ اس کسان دوست بجٹ کے نتیجے میں ملک خوردنی تیل، گندم اور دیگر اجناس کی پیداوار میں خود کفیل ہو جائے گا، یہ فوائد طویل مدتی ہوں گے۔انہوںنے کہاکہ بجٹ میں کسانوں کے لیے فنڈز کو سبسڈی نہیں بلکہ سرمایہ کاری سمجھا جانا چاہیے، ہمیں یقین ہے کہ اگر ہم کسانوں پر سرمایہ کاری کریں گے تو وہ
ہمیں بہترین منافع دیں گے۔وفاقی وزیر نے کہا کہ انہیں یقین ہے کہ رواں مالی سال پاکستان کو تاریخ میں ایک برا سال تصور کیا جائے گا کیونکہ ہم بہت سے اہداف سے دور ہو گئے اور بجٹ میں نمایاں خسارہ درج کیا ہے۔انہوں نے کہا کہ وفاقی حکومت نے پرانی جی ڈی پی کا 8.95 فیصد خسارہ بتایا ہے، یہ ملک کے اخراجات اور وسائل کے درمیان وسیع خلا کو ظاہر کرتا ہے، اب ہمیں دوسروں سے فنڈز لینا ہوں گے، یہی وجہ ہے کہ اپریل میں وزیر
خزانہ بننے کے فوراً بعد مجھے متعدد غیرملکی دوروں پر جانا پڑا۔انہوںنے کہاکہ جب ہم آزادی، خود مختاری اور خود انحصاری کی بات کرتے ہیں تو یہ کیسی آزادی ہے کہ ہم تین سے چار سالوں میں 20ہزار ارب روپے کے قرضے لیتے ہیں؟۔۔انہوںنے کہاکہ سابق وزیر اعظم اور پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان کے دور حکومت کے مختصر عرصے میں اتنے بڑے قرضے لینے کا الزام لگاتے ہوئے مفتاح اسمٰعیل نے کہا کہ ایسا کرتے ہوئے ہم
آزادی کی طرف نہیں بلکہ غلامی کی طرف جاتے ہیں۔انہوں نے عمران خان کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ آپ لوگوں کو یہ لیکچر نہ دیں کہ ہم حقیقی آزادی کی طرف بڑھ رہے ہیں۔انہوں نے عمران کی پی ٹی آئی حکومت کی جانب سے فروری میں متعارف کرائی گئی ایندھن اور توانائی کی سبسڈی کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا۔انہوں نے کہا کہ سبسڈیز کی مالیت 120 ارب روپے تھی اور انہوں نے مسلم لیگ (ن) کے اتحادیوں کا شکریہ ادا کیا جنہوں نے اس
بات کو تسلیم کیا کہ حکومت اس طرح کے مشکل وقت میں یہ اخراجات برداشت نہیں کر سکتی۔انہوں نے کہا کہ سبسڈی کو ختم کرنا ایک مشکل فیصلہ تھا اور دوبارہ اتحادیوں کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ ان سب کا خیال تھا کہ اس سے سیاسی سرمائے پر اثر پڑے گا لیکن ان سب نے اتفاق کیا کہ پاکستان پہلی ترجیح ہے۔انہوںنے کہاکہ ملک کو ڈیفالٹ سے بچانے کے لیے آئی ایم ایف پروگرام کی بحالی ضروری ہیمفتاح اسماعیل نے تخمینہ لگایا کہ جاری
مالی سال میں کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ تقریباً 17 ارب ڈالر تک پہنچ جائے گا اور ایک کروڑڈالر کے معمولی ذخائر اس خسارے کو برقرار نہیں رکھ سکتے۔انہوں نے وضاحت کی کہ یہی وجہ ہے کہ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کا 6 ارب ڈالر کا قرض کا پروگرام دوبارہ شروع کیا جائے تاکہ ملک کو ڈیفالٹ سے بچایا جا سکے۔انہوںنے کہاکہ حالیہ دنوں میں آئی ایم ایف اور حکومت کے درمیان بات چیت کی تفصیلات بتاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پاکستان
نے 23 مالی نمبروں میں اہم پیش رفت کی ہے۔وزیر اعظم شہباز شریف کی جانب سے گزشتہ روز اعلان کردہ ٹیکسوں کا حوالہ دیتے ہوئے مفتاح اسمٰعیل نے ایوان کو بتایا کہ کوئی بالواسطہ ٹیکس نہیں لگایا گیا اور نہ ہی کھپت پر کوئی ٹیکس لگایا گیا ہے۔انہوں نے کہا کہ ہم نے امیروں پر ٹیکس لگایا ہے، زیادہ تر ریونیو اس کے ذریعے اکٹھا کیا جائے گا تاکہ ہمیں دوسروں سے پیسے مانگنے کی ضرورت نہ پڑے اور اپنے بجٹ خسارے کو کم کرنے کے
قابل ہو سکیں۔وزیر خزانہ نے کہا کہ میری کمپنیاں بھی پہلے کے مقابلے میں 20کروڑ روپے زیادہ ٹیکس ادا کریں گی اور اس لیے اگر ہم دوسروں سے زیادہ ٹیکس ادا کرنے کے لیے کہہ رہے ہیں، تو ہم بھی اس میں اپنا حصہ ڈال رہے ہیں۔انہوںنے کہاکہ وزیراعظم کا شکر گزار ہوں جنہوں نے خصوصی دلچسپی لی ،وزیراعظم نے میری باتیں مانیں اور کچھ نہیں بھی مانیں۔وزیر خزانہ نے بجٹ تیاری میں تعاون کرنے پر ایاز صادق،طارق بشیر،عائشہ غوث اور راؤ اجمل سے اظہار تشکر کیا ۔