اسلام آباد (این این آئی)الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) نے پنجاب اسمبلی کی مخصوص نشستوں سے متعلق محفوظ فیصلہ سناتے ہوئے پنجاب اسمبلی کی 5 مخصوص نشستوں کا نوٹیفکیشن ضمنی انتخابات تک روک دیا ہے۔الیکشن کمیشن نے فریقین کے دلائل سننے کے بعد
پی ٹی آئی کے 25 منحرف قانون سازی کے ڈی سیٹ ہونے کے بعد خالی ہونے والی خواتین اور اقلیتوں کی پانچ مخصوص نشستوں پر نئے اراکین پنجاب اسمبلی کے نوٹی فکیشن سے متعلق فیصلہ محفوظ کیا تھا۔تحریک انصاف نے اپنی درخواست میں پانچوں مخصوص نشتیں اسے دینے کا مطالبہ کیا تھا۔دوسری جانب مسلم لیگ (ن) نے پنجاب اسمبلی میں اراکین کے موجودہ تناسب کے مطابق نوٹیفکیشن کے اجرا کا مطالبہ کیا تھا۔الیکشن کمیشن نے تحریک انصاف اور مسلم لیگ (ن) کی درخواستیں مسترد کردیں۔فریقین کے دلائل سننے کے بعد الیکشن کمیشن نے پنجاب اسمبلی کی مخصوص نشستوں سے متعلق اپنا محفوظ فیصلہ سنایا۔الیکشن کمیشن نے اپنا فیصلہ سناتے ہوئے پنجاب اسمبلی کی 5 مخصوص نشستوں کا نوٹیفکیشن ضمنی انتخابات تک روک دیا ہے۔لاہور ہائی کورٹ کی ہدایت پر 5 رکنی بینج نے فیصلہ محفوظ کرلیا تھا۔خیال رہے وزیر اعلیٰ پنجاب کے انتخاب میں حمزہ شہباز کو ووٹ دینے پر گزشتہ ماہ پی ٹی آئی کے پانچ قانون سازوں کو ڈی سیٹ کردیا گیا تھا، ان اراکین کی رکنیت معطل کرنے کا اعلامیہ 23 مئی کو جاری کیا گیا تھا۔پی ٹی آئی نے 28 مئی کو لاہور ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی تھی جس میں استدعا کی گئی تھی کہ الیکشن کمیشن کو ہدایت دی جائے کہ خالی نشستوں پر نئے ایم پی ایز کی تعیناتی کے لیے اعلامیہ جاری کیا جائے اس سلسلے میں لاہور ہائی کورٹ نے
الیکشن کمیشن کو 2 جون تک کی مہلت دیتے ہوئے معاملے پر فیصلہ دینے کے لیے کہا تھا۔دوران سماعت پی ٹی آئی کے وکیل فیصل چوہدری نے دلائل دیے کہ پنجاب کی نااہل حکومت کے پاس اکثریت نہیں ہے اس وجہ سے وہ برسرِ اقتدار رہنے کے مستحق نہیں ہے۔ان کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن کو چاہیے کہ آئین کے تحت مخصوص نشستوں پر نئے اراکین صوبائی اسمبلی کی تعیناتی کا اعلامیہ ’فوری طور پر‘ جاری کرے۔انہوں نے کہا کہ نئی
اراکین اسی پارٹی سے ہونے چاہیے جس پارٹی کے اراکین کو ڈی سیٹ کیا گیا ہے۔دریں اثنا مسلم لیگ (ن) کے وکیل خالد اسحق نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ کیس ’پہلے تاثر‘ کا تھا اور بنیادی متناسب نمائندگی کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔انہوں نے الیکشن کمیشن سے استدعا کی کہ پنجاب اسمبلی کے موجودہ تناسب کے مطابق اراکین صوبائی اسمبلی کے لیے نوٹی فکیشن جاری کیا جائے۔قبل ازیں اٹارنی جنرل آپ پاکستان اشتر اوصاف نے دلیل دی کہ اسمبلی
مکمل نہ ہونے تک تناسب کے مطابق نمائندگی کے قانون کا اطلاق نہیں کیا جاسکتا۔انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی کی 20 نشستیں خالی ہوچکی ہیں جس کے بعد ان کا تناسب یکساں نہیں ہے، کوئی نہیں کہہ سکتا کہ ضمنی انتخاب میں کون کامیاب ہوگا۔اشتر اوصاف کا کہنا تھا کہ یہ ’زیادہ مناسب‘ ہوگا کہ الیکشن کمیشن ضمنی انتخابات تک انتظار کرے۔الیکشن کمیشن کی جانب سے وکلا کے دلائل کے بعد فیصلہ محفوظ کیا گیا جو بعد میں سنایاگیا۔ یاد رہے کہ پی
ٹی آئی اور مسلم لیگ (ق) کے چوہدری پرویز الہٰی نے سپریم کورٹ کی تشریح کی روشنی میں حمزہ شہباز کے انتخاب کو ‘غیر قانونی’ قرار دینے کے لیے لاہور ہائی کورٹ سے رجوع کر رکھا تھا۔حمزہ شہباز کے 16 اپریل کو وزیر اعلیٰ منتخب ہونے کے بعد پی ٹی آئی نے 25 اراکین صوبائی اسمبلی کو منحرف قرار دینے کا اعلامیہ پنجاب اسمبلی کے اسپیکر پرویز الہٰی کو بھیجا تھا، جو وزیر اعلیٰ کے لیے پی ٹی آئی،پی ایم ایل (ق) کے مشترکہ امیدوار
بھی تھے۔اس کے بعد پرویز الہٰی نے الیکشن کمیشن کو ریفرنس بھیجا تھا اور اس پر زور دیا تھا کہ ان قانون سازوں کو پارٹی ہدایات کی خلاف ورزی کرتے ہوئے حمزہ شہباز کے حق میں ووٹ ڈال کر پی ٹی آئی سے منحرف ہونے پر ڈی سیٹ کیا جائے۔الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) نے 20 مئی کو پنجاب کے وزیر اعلیٰ کے انتخاب میں حمزہ شہباز کو ووٹ دینے والے پی ٹی آئی کے 25 منحرف اراکین صوبائی اسمبلی کے خلاف ریفرنس منظور کرتے ہوئے انہیں ڈی سیٹ کردیا تھا۔