اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک) امریکی محکمہ خارجہ سے آنے والے دھمکی آمیز مراسلے سے جڑی سازش کے بارے میں قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں بحث ہوئی تھی لیکن چونکہ اس سنگین الزام کے حوالے سے ٹھوس ثبوت نہیں تھا اسلئے کمیٹی نے امریکا کو احتجاجی مراسلہ بھیجنے تک ہی اپنے فیصلے کو محدود کر دیا۔روزنامہ جنگ میں انصار عباسی کی خبر کے مطابق انتہائی موقر ذریعے
نے بتایا کہ سیکورٹی کمیٹی میں اس بات پر اتفاق رائے پایا گیا کہ جو کچھ بھی پی ٹی آئی کی حکومت کے حوالے سے کہا گیا اس پر امریکا کو Demarche جاری کیا جائے۔سویلین سائیڈ نے سازش کا معاملہ بھی اٹھایا لیکن فوج کی جانب سے اصرار کیا گیا کہ ایسا کوئی ثبوت نہیں ہے اور محض قیاس کی بنیاد پر اسے سازش نہیں کہا جا سکتا۔ذریعے کا کہنا تھا کہ کمیٹی کی جانب سے متفقہ طور پر یہ فیصلہ کیا گیا کہ ڈی مارچ جاری کیا جائے کیونکہ جو کچھ بھی امریکی انتظامیہ کی جانب سے پیغام کی صورت میں بھیجا گیا تھا وہ پاکستان کیلئے نا مناسب اور جارحانہ تھا۔ذریعے کے مطابق، سفارتی امور میں ڈی مارچ کا جاری کیا جانا معمول کی بات ہے۔اس نمائندے کو یہ بھی بتایا گیا متعلقہ ایجنسیوں نے کوئی ثبوت پیش کیا اور نہ ہی سازش کے حوالے سے کوئی ٹھوس ثبوت موجود ہیں۔ذریعے نے افسوس کا اظہار کیا کہ کوئی کس طرح سیاسی رہنمائوں کو محض قیاس کی بنیاد پر غدار قرار دے سکتا ہے۔یہ ملک اور سیاست کیلئے خطرناک ہے۔
یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ دفاعی اسٹیبلشمنٹ شاید اس معاملے پر کوئی بات کرے لیکن پہلے سپریم کورٹ کیس (اسپیکر کی روُلنگ) کا فیصلہ کرلے۔ اپوزیشن رہنمائوں کا مطالبہ ہے کہ ملٹری اسٹیبلشمنٹ اس معاملے پر رائے پیش کرے۔تاہم، پی ٹی آئی کے ذرائع سے ہونے والی بات چیت سے ظاہر ہوتا ہے کہ دھمکی آمیز خط کے معاملے کو سیاسی ایشو بنانے کیلئے سازش کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔
دوسر ی جانب اپوزیشن ذرائع نے کا کہنا ہے کہ یہ جھوٹ ہے ، یہ الزامات ثابت کریں کیونکہ انہوں نے یہ سفارتی کیبل دبائے رکھا اور تحقیقات نہیں کیں ،ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ یہ ہمارے خلاف الزامات ثابت کرتے ہمیں سزا دیتے لیکن انہوں نے یہ منصوبہ بندی کی کہ عدم اعتماد سے راہ افرار اختیار کرسکیں جس طرح انہوں نے اسمبلی میں حرکت کی ہے 3 منٹ میں پی ٹی آئی وزیر اور ڈپٹی اسپیکر نے الزام لگا کر اجلاس کی کارروائی لپیٹ دی۔
وزیراعظم نے 2منٹ بعد تقریر کی جس کے بعد صدر نے 2منٹ میں اسمبلی تحلیل کردی تاکہ تحقیقات نہ ہوں اس معاملے کو الیکشن میں ایشو بنائیں ، معاملے کی تحقیقات کی صورت میں یہ خود سازشی قرار پاتے۔ایک سابق وزیر، جو نیشنل سیکورٹی کمیٹی کے رکن بھی تھے، نے بتایا ہے کہ سفارتی خط کو انٹیلی جنس بیورو کی اپوزیشن کے اہم رہنمائوں اور ناراض پی ٹی آئی ارکان کی ملاقاتوں کے ساتھ جوڑنے کی بنیاد پر پی ٹی آئی قیادت اسے امریکی سازش قرار دینے کے نتیجے پر پہنچی۔
پی ٹی آئی رہنما کا کہنا ہے کہ حکومت کے پاس تفصیلات نواز شریف کی لندن میں گزشتہ چند مہینوں کے دوران ہونے والی ملاقاتوں، بلاول بھٹو کی ان کے گزشتہ دورہ امریکا کے موقع پر ہونے والی ملاقاتوں کی تفصیلات موجود ہیں، یہ بھی معلوم ہے کہ کس نے ڈپلومیٹک کور سے اپوزیشن رہنمائوں اور پی ٹی آئی کے ناراض ارکان سے ملاقات کی۔
تاہم، سابق وزیر کا اصرار تھا کہ ان کی حکومت سازش کا معاملہ آگے نہیں بڑھانا چاہتی تھی کیونکہ اس میں کئی پیچیدگیاں شامل ہیں۔آزاد ذرائع نے خبردار کیا ہے کہ اس صورتحال میں جب ٹھوس ثبوت موجود نہیں، پی ٹی آئی نے اسے سیاسی معاملہ بنا دیا ہے اور مخالفین کو غدار قرار دیدیا ہے، ایسے میں ملٹری اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے کسی بھی طرح کی وضاحت کے نتیجے میں امکان ہے کہ سوشل میڈیا پر دفاعی حکام کیخلاف مہم چلائی جا سکتی ہے