کراچی (این این آئی) پاکستان قومی اتحاد چیئرمین جسٹس (ر) وجیہ الدین نے کہا ہے کہ اسٹیٹ بینک ترمیمی ایکٹ میں حکومت نے گورنر کی جو تنخواہ تجویز کی ہے اس میں تو امریکی صدر کی خدمات بھی حاصل کی جا سکتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بالآخر فنانس ترمیمی ایکٹ اور اسٹیٹ بینک آف پاکستان ترمیمی ایکٹ کے بل قومی اسمبلی میں پیش ہوگئے۔ حزب اختلاف کی جانب سے مخالفت کے چرچے تھے
مگر وقت پر اسمبلی میں ان کی اعلی قیادت کا دور دور پتہ نہ تھا۔ فنانس بل کمنٹس کے لئے سینیٹ روانہ ہوا، جبکہ اسٹیٹ بینک ترمیمی بل متعلقہ کمیٹی کی مشاورت کے لئے ارسال کردیا گیا۔ فنانس ایکٹ تو عوام کے لاغر کندھوں پر غیر ضروری بوجھ ہے، کیونکہ اتنے محصولات تو صرف ٹیکس مشینری فعال بناکر ہی حاصل ہوجاتے۔ مگر پھر مہنگائی و عوام کی بے بسی کے نظارے کیسے ہوتے۔ انہوں نے کہا کہ اسٹیٹ بینک ترمیمی بل دور رس نتائج کا حامل ہے، جو اسٹیٹ بینک کے بجائے گورنر اسٹیٹ بینک ترمیمی بل معلوم ہوتا ہے۔ اس کے ذریعے 1956ء کے ایکٹ میں 54 ترامیم اور 10 شقوں کا اضافہ تجویز ہوا ہے۔ سب سے پہلے تو موجودہ گورنر اسٹیٹ بینک کو اس مدت کے بعد ایک اور پانچ سالہ ایکسٹینشن دی جاسکے گی۔ اور وہ بھی ایسی ماہوار تنخواہ پر جو آج تک پاکستان میں کسی کو میسر نہ آسکی۔ یعنی ڈیڑھ کڑور روپے ماہوار جو رائج الوقت ایکسچینج ریٹ سے تقریباً 84 ہزار ڈالر بنتی ہے۔ اتنی تنخواہ تو امریکی صدر کی بھی نہیں۔ واضح رہے کہ امریکی صدر کی سالانہ بنیادی تنخواہ 4 لاکھ ڈالر ہے، جو ماہانہ 33 ہزار 333 ڈالر بنتی ہے۔ بڑی بات یہ ہے کہ اسٹیٹ بینک اب صرف کرنسی، قرضہ جات اور ملکی اشیا کی قیمتوں کے استحکام تک محدود رہے گا اور معیشت کی نمو سے لاتعلق۔ یہاں بھی قرضہ جات صوبوں سے متعلق اور مرکز سے ہٹ کے۔
وفاق بینک سے قرضے لے سکے گا نہ کوئی قرض موخر ہوگا، گویا قرض دینے ہی ہوں گے۔ تنگدستی میں مزید قرض لے کر، یعنی واحد امر مملکت اب قرضے اتارنا ہوگا، بیرونی تو پہلے ہی وبال جان تھے، اب بینک دولت پاکستان بھی ان کا ہمسر ٹھہرا۔ اور تو اور مملکت اب جو گرتا ہے اسے گرنے دو کے مصداق، گرتے ہوئے بینکوں
و مالیاتی اداروں کی دستگیری بھی نہ کرسکے گی۔ علاوہ ازیں، عسکری ادارے اپنے اکاؤنٹ اب صرف اسٹیٹ بینک میں رکھ سکیں گے، جس سے بہتر عسکری اداروں کی نگہداشت ممکن ہی نہ تھی۔ تمام اصولوں سے انحراف کرتے ہوئے گورنر اسٹیٹ بینک یا ڈپٹی گورنر ہی بینک کے بورڈ کی صدارت کرسکیں گے یعنی وہ بورڈ کے ملازم نہیں بلکہ بورڈ ان کے تحت ہوگا۔
بظاہر گورنر اسٹیٹ بینک صدر مملکت کا تقرر کردہ ہوگا، مگر تقرری کے بعد آئین و ہر قسم کے قوانین سے ماورا۔ آئین پاکستان صرف آزاد عدلیہ کی ضمانت دیتا ہے، مگر ایک مرتبہ یہ ترمیم ہوگئی تو یہاں آزادی صرف گورنر اسٹیٹ بینک کو حاصل ہوگی۔ واہ، خلافت عثمانیہ کے آخری ایام کی یاد تازہ ہوگئی جب قرض خواہوں نے ترکی میں اپنے گماشتوں کے ذریعے بلاواسطہ سرکاری محصولات وصول کرنے شروع کر دیئے تھے۔