اسلام آباد (این این آئی)وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے واضح کیا ہے کہ تین سال میں اپوزیشن کے کرتوت ٹھیک نہیں ہوسکتے ،رواں سال ہمیں دس بلین ڈالر قرض واپس کرنا پڑا ، اگلے سال بارہ بلین ڈالر واپس کر نا ہے ،ماضی کی بدترین معاشی پالیسیوں کا خمیازہ آج ہم بھگت رہے ہیں،سندھ میں چینی سمیت تمام اشیا بقیہ ملک کے مقابلے میں زیادہ مہنگی ہیں،
چینی کی قیمتوں میں اضافہ سٹے کے نتیجے میں ہوا ہے ، حکومت کے پاس ایک لاکھ 3ہزار ٹن چینی کا ذخیرہ موجود ہے جو 22 دنوں کے کافی ہے، پاکستان کے حالات جن کی وجہ سے آج ایسے ہیں وہ اب حل بتارہے ہیں،اسحق ڈار کی پالیسیوں پر شاہد خاقان اور مفتاح اسمٰعیل تنقید کرتے رہے،مشکل وقت کا ہمیں بھی باقی دنیا کی طرح مقابلہ کرنا پڑے گا۔ جمعہ کو یہاں وفاقی وزیر فخر امام کے ہمراہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وزیراطلاعات نے کہاکہ لوگ اپوزیشن کی باتوں کو اہمیت نہیں دیتے،تین سال میں ان کے کرتوت ٹھیک نہیں ہو سکتے تھے۔انہوںنے کہاکہ اگلے سال ہمیں بارہ بلین ڈالر قرض واپس کرنا ہے، اس سال ہمیں دس بلیں ڈالر قرض واپس کرنا پڑا۔ وزیر اطلاعات نے کہاکہ ماضی کی بدترین معاشی پالیسیوں کا خمیازہ آج ہم بھگت رہے ہیں۔ وفاقی وزیر نے دعویٰ کیاکہ 2008سے 2018تک پاکستان کے بدترین سال گزرے، ماضی کی حکومت نے ڈالر مصنوعی طریقے سے روکے رکھا، ڈالر کی قیمت ماضی کی پالیسیوں کی وجہ سے بڑھی۔ انہوںنے کہاکہ پاکستان کے حالات جن کی وجہ سے آج ایسے ہیں وہ اب حل بتارہے ہیں۔ انہوںنے کہاکہ ماضی کی حکومت نے 23ملین ڈالر قرضہ لیا۔ انہوںنے کہاکہ اسحق ڈار کی پالیسیوں پر شاہد خاقان اور مفتاح اسمٰعیل تنقید کرتے رہے۔ وفاقی وزیر نے کہاکہ چینی کی قیمتوں میں اضافے کی تمام خبریں کراچی سے آ رہی ہیں
جہاں باقی ملک کے مقابلے میں اشیا کی قیمتیں بے انتہا زیادہ ہیں۔انہوں نے کہا کہ آٹے کی بوری کراچی میں پنجاب کے مقابلے میں 380روپے زیادہ مہنگی ہے، یہ قیمت خیبر پختونخوا سے بھی زیادہ ہے، اسی طرح چینی سمیت باقی اشیا بھی سندھ میں سب سے زیادہ مہنگی ہیں۔انہوںنے کہاکہ سندھ حکومت اپنی پوزیشن واضح کرے کیونکہ
انہوں نے پہلے گندم ریلیز نہیں اور اب وہ وہاں چینی کی کرسنگ شروع نہیں کررہے خصوصاً شہری سندھ جن تکالیف کا شکار ہے وہ سندھ حکومت کی پالیسیوں کے نتیجے میں ہے۔فواد چوہدری نے کہا کہ سندھ میں ایسا لگتا ہے کہ کوئی قانون نہیں ہے، سوشل میڈیا پر جو ویڈیو آ رہی ہیں تو اس سے لگتا ہے کہ پولیس کا کوئی نام و نشان
نہیں ہے، لوگ دن دہاڑے قتل ہو رہے ہیں اور جنگل کا ماحول لگ رہا ہے۔انہوں نے اینکر اور میڈیا کے لوگوں سے اپیل کی کہ وہ ان لوگوں کی زندگیوں کی قدر کریں اور سندھ حکومت پر دباؤ ڈالیں کہ وہ ان امور کی آزادانہ تحقیقات کرے۔انہوںنے کہاکہ سندھ حکومت گندم ریلیز نہیں کررہی جس کی وجہ سے کراچی کے ساتھ ساتھ سندھ بھر میں
آٹے کی قیمت پورے پاکستان سے زیادہ ہے، اسی طرح چینی کی کرشنگ سب سے پہلے سندھ میں شروع ہونی تھی اور ایسا نہ ہونے کی وجہ سے دباؤ آ رہا ہے۔وزیر اطلاعات نے کہا کہ پاکستان میں چینی کی یومیہ کھپت 15ہزار ٹن ہے، اس میں سے 6ہزار ٹن گھریلو صارفین استعمال کرتے ہیں اور 9ہزار ٹن میں صنعتوں میں استعمال ہوتی ہے،
حکومت کے پاس اس وقت ایک لاکھ 3ہزار ٹن چینی کا ذخیرہ موجود ہے لہٰذا کسی قسم کا کوئی دباؤ نہیں اور یہ چینی کا ذخیرہ 22 دنوں کے لیے کافی ہے، 15 دن میں پنجاب میں کرشنگ شروع ہو جائے گی جس سے مسئلہ حل ہو جائے گا۔انہوں نے کہا کہ چینی کی قیمتوں میں اضافہ سٹے کے نتیجے میں ہوا ہے اور زیادہ شوگر ملیں سندھ میں
آصف زرداری کے زیر سایہ چل رہی ہیں اور پنجاب میں اکثر شوگر ملیں شریف خاندان کی ہیں۔ انہوں نے کہاکہ نجی شعبے کے پاس 90ہزار ٹن کا اسٹاک پڑا ہوا ہے جو انہوں نے روک کر قیمت بڑھا دی ہے۔انہوں نے کہا کہ حکومت نے کارروائی کرنا چاہی اور اس 90ہزار ٹن چینی کو نکلوانے گئی تو انہوں نے ہائی کورٹ سے حکم
امتناع لے لیا اور یہ معاملہ اب ہائی کورٹ میں زیر التوا ہے۔وزیر اطلاعات نے عدلیہ سے اپیل کی کہ ان کے حکم امتناع ختم ہونے چاہئیں کیونکہ ان کی وجہ سے بحرانی صورتحال پیدا ہو گئی ہے اور حکومت لوگوں کو 90روپے میں چینی فراہم کر سکے۔انہوں نے کہا کہ سندھ نے چینی کی کرسنگ کا عمل یکم نومبر سے شروع کرنا تھا تاہم وہ
ایسا نہ کر سکے لیکن پنجاب میں کرشنگ شروع ہو جائے گی۔پیٹرول کی قیمتوں میں اضافے کے حوالے سے فواد چوہدری نے کہا کہ عالمی منڈی میں اس وقت بحران ہے، حکومت یہ کرسکتی ہے کہ تیل پر مقامی ٹیکسز کم کرتے جائیں، اگر ہم تیل پر ٹیکسز قائم رکھتے تو پیٹرول 180روپے لیٹر مل رہا ہوتا اور حکومت اس مد میں 450ارب
روپے کما چکی ہوتی۔انہوں نے کہا کہ ہم نے ٹیکسز کو سب سے کم ترین سطح پر رکھا ہوا ہے اور اس پر حکومت نے کْل ٹیکس 50 ارب روپے کمایا ہوا ہے لیکن اگر ہم مسلم لیگ(ن) کے دور کے ٹیکسز برقرار رکھتے تو حکومت 500ارب ٹیکس کما رہی ہوتی۔ انہوںنے کہاکہ عالمی سطح پر اشیائے خورونوش کی قیمتیں 10سال کی بلند
ترین سطح پر ہیں جبکہ تیل کی قیمتیں بھی اب تک کی بلندترین سطح پر ہیں۔فواد چوہدری نے کہا کہ لوگ کہتے ہیں کہ بھارت اور بنگلہ دیش میں غربت تو پاکستان سے زیادہ ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ فی کس آمدن بھی ہم سے زیادہ ہے، انہیں یہ معلوم ہونا چاہیے کہ فی کس آمدن میں امبانی اور ٹاٹا کی آمدن بھی شامل ہے، عام آدمی کے حالات وہاں
ہم سے برے ہیں، وہاں تیل کی قیمت پاکستان سے 50 سے 60 روپے زیادہ ہے اور وہاں اپوزیشن اس وجہ سے حکومت پر تنقید کررہی ہے۔ انہوںنے کہاکہ حکومت نے احساس کا پروگرام شروع کیا ہے جس سے 31ہزار روپے ماہانہ سے کم کمانے والے ایک کروڑ 20 لاکھ خاندان تین چیزوں آٹا دال اور گھی پر ماہانہ فائدہ پہنچایا گیا ہے،
مجموعی طور پر مہنگائی 27فیصد پر ہے تو ہم نے انہیں 30 فیصد کا فائدہ پہنچایا ہے۔اس موقع پر وفاقی وزیر برائے فوڈ سیکیورٹی فخر امام نے کہا کہ ٹڈل دل کے ساتھ کورونا کی وبا کے باوجود ہم نے پانچ میں سے تین اجناس کی ریکارڈ پیداوار کی۔انہوں نے کہا کہ بدقسمتی سے سندھ نے پچھلے سال کی طرح اس سال بھی گندم ریلیز نہیں
کی جس کے نتائج یہ ہیں کہ سندھ میں 20 کلو اٰٹے کا تھیلا ساڑھے تین سو روپے مہنگا ہے لیکن پنجاب میں 20 کلو کا تھیلا سب جگہ 1100 روپے میں مل رہا ہے۔ انہوںنے کہاکہ ہمیں امید ہے کہ گزشتہ سال کی طرح اس سال بھی ہماری چاول میں ریکارڈ پیداوار ہو گی، پچھلے سال 84لاکھ ٹن پیداوار تھی اور اس سال 91لاکھ ٹن پیداوار
ہونے کا امکان ہے۔وفاقی وزیر نے کہا کہ یہ بدقسمتی ہے کہ اس ملک میں چند افراد ذخیرہ اندوزی کر کے قیمت بڑھا رہے ہیں اور پاکستان کو نقصان پہنچا رہے ہیں، ہم امید کررہے ہیں کہ اس مصنوعی بحران سے جلد نجات مل جائے گی۔ انہوںنے کہاکہ ہمارے پاس گندم کی وافر مقدار موجود ہے، ہمارے پاس ساڑھے5ملین ٹن کے گندم کے ذخائر ہیں۔ انہوںنے کہاکہ 15نومبر سے پنجاب میں گنے کی کرشنگ شروع ہوجائے گی۔