لاہور (آن لائن) براعظم ایشیاء کسی نئی سرد جنگ کا ہرگز متحمل نہیں ہوسکتا۔ سی پیک کے خلاف مہم درحقیقت چین کے خلاف امریکی پراپیگنڈے کا حصہ ہے۔ امریکی اور مغربی انتہا پسندوں کی سوچ تاریخ کے رُخ کے خلاف ہے۔ امریکہ زوال پذیر جبکہ چین عروج کی جانب گامزن ہے۔امریکی صدی کا اختتام اور ایشائی صدی کا آغاز ہوچکا ہے۔ اس خطے کے تیزی سے تبدیل ہوتے
حالات میں ہمیں بڑی دانشمندی اور دلیری سے کام لینا ہوگا اور ایسی پالیسیاں بنانا ہوں گی جو پاکستان کے طویل المعیاد مفادات کا تحفظ کرتی ہوں۔ ہمیں اپنے عوام کو اصل حقائق سے آگاہ کرنا چاہیے اور علاقائی ممالک بالخصوص روس، چین، ایران، ترکی، قطر اور وسط ایشیائی ممالک سے مل کر ایسی پالیسیاں وضع کرنی چاہئیں جن سے افغانستان اور اس خطے میں استحکام پیدا ہوسکے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان اور عوامی جمہوریہ چین کے عوام کے درمیان باہمی رابطوں کو مضبوط بنانے کے لیے ’’انجمن پاک چین دوستی‘‘ کا احیاء کیاجائے۔ ان خیالات کا اظہار ممتاز سیاسی رہنما اور سینیٹ آف پاکستان کی کمیٹی برائے دفاع کے چیئرمین سینیٹر مشاہد حسین سید نے نظریۂ پاکستان ٹرسٹ کے زیرِ اہتمام ایوانِ قائداعظمؒ میں ایوانِ قائداعظمؒ فورم سے پاک چین دوستی کے 72سالوں کے تناظر میں خطاب کرتے ہوئے کیا۔ نشست کی صدارت چیف جسٹس(ر) اعجاز نثار نے کی۔ اس موقع پر نظریۂ پاکستان ٹرسٹ کے وائس چیئرمین میاں فاروق الطاف، چوہدری نعیم حسین چٹھہ، سینیٹر ولید اقبال، بیگم مہناز رفیع، نظریۂ پاکستان ٹرسٹ کے سیکرٹری شاہدرشید اور دیگر شخصیات موجود تھیں۔ نشست کے دوران عوامی جمہوریہ چین کے قومی دن کی مناسبت سے کیک کاٹنے کی رسم بھی ادا کی گئی۔سینیٹر مشاہد حسین سید نے فورم کے شرکاء کو عوامی جمہوریہ چین کے 72ویں یومِ آزادی کی مبارکباد پیش کرتے ہوئے کہا کہ چین ہمارا دیرینہ دوست اور بااعتماد ساتھی ہے جس نے یکم اکتوبر 1949ء کمیونسٹ پارٹی آف چائنہ کے چیئرمین مائوزے تنگ کی قیادت میں سامراجی طاقتوں کے تسلط سے آزادی حاصل کی۔انہوںنے کہا کہ 1840ء سے لے کر 1949ء تک چینی قوم کو برطانیہ، امریکہ، فرانس اور جرمنی کے ہاتھوں انتہائی توہین آمیز سلوک کا سامنا کرنا پڑا۔ یہی وجہ ہے کہ آج چین اپنی آزادی،
خودمختاری اور استحکام کے حوالے سے بڑا حساس ہے۔ سینیٹر مشاہدحسین سیدنے مزید کہا کہ چین کی ترقی میں اس کی لیڈرشپ کے انتہائی اعلیٰ و ارفع معیار، غلط راستے کا احساس ہونے پر اسے تبدیل کرلینے کی صلاحیت،دوسروں سے سیکھنے کی صلاحیت اور پُرامن خارجہ پالیسی کا کردار کلیدی اہمیت کا حامل ہے۔ چینی قوم اس لحاظ سے بڑی خوش نصیب ثابت ہوئی ہے کہ اُسے اپنی آزادی کے اول روز سے ہی مائوزے تنگ اور چواین لائی جیسے مدبر مل گئے۔ بعدازاں ڈینگ شیائو پنگ
اور ژی جن پنگ جیسے قدآور رہنمائوں نے اس پالیسی کو آگے بڑھایا۔ چینی رہنمائوں نے سب سے زیادہ سرمایہ کاری انسانی وسائل پر کی ہے اور خود کو جنگوں میں ملوث نہ کرکے اپنے مالی وسائل کو اپنے عوام کی فلاح و بہبود پر خرچ کیا ہے۔ اس کے برعکس امریکہ نے دیگر ممالک پر اپنے نظریات اور تہذیب و ثقافت مسلط کرنے کے لیے بلاجواز جارحیت کا ارتکاب کیا اور 6.5کھرب ڈالر سے زائد ضائع کردیے۔ انہوں نے کہا کہ آج امریکہ ریسرچ اینڈ ڈیویلپمنٹ پر محض 124ارب ڈالر جبکہ
عوامی جمہوریہ چین 342ارب ڈالر سالانہ خرچ کررہا ہے۔ چینی حکومت نے سائنس، ٹیکنالوجی، انجینئرنگ اور میتھ میٹکس کے علوم پر مہارت حاصل کرنے کو اپنا ہدف بنایا ہوا ہے اور ان علوم کے ماہرین چین کے موجودہ عروج میں اہم کردار اداکررہے ہیں۔ سینیٹر مشاہد حسین سید نے کہا کہ امریکہ نے افغانستان میں شرمناک ہزیمت سے کوئی سبق نہیں سیکھا بلکہ وہ ہمارے دوست چین کے خلاف ایک نئی سرد جنگ کی تیاری کررہا ہے اور اس مقصد کے لیے
اُس نے آسٹریلیااور برطانیہ کو اپنے ساتھ ملا کر آکس (AUKUS) کے نام سے ایک تزویری اتحاد تشکیل دیا ہے۔ علاوہ ازیں اُس نے کواڈ (Quad)کے نام سے بھی ایک اتحاد بنایا ہے جس میں بھارت بھی شامل ہے جو پاکستان اور چائنہ کا مشترکہ حریف ہے۔ انہوں نے کہا کہ چین کے روزبروز بڑھتے عالمی اثر و رسوخ سے خائف ہوکر امریکہ نے 300 ملین ڈالر سے کائونٹرنگ چائنہ فنڈ (Countering China Fund) قائم کیا ہے جس کا مقصد چین اور اس کے تزویری منصوبوں کے خلاف
بے بنیاد پراپیگنڈا کرناہے اور میں سمجھتا ہوں کہ چین پاکستان اقتصادی راہداری (CPEC)کے خلاف مہم بھی اسی فنڈ سے چلائی جارہی ہے۔ سینیٹر مشاہد حسین سید نے کہا حال ہی میں امریکی سینیٹ میں 22سینیٹرز کی طرف سے پیش کردہ بل میں تین بار پاکستان کا ذکر کیا گیاہے اور وادیٔ پنج شیر میں طالبان کے ہاتھوں ستمبر 2021ء میں شمالی اتحاد کی شکست میں پاکستان کے
فعال کردار کے تذکرہ کی بنیاد بھارت کی تیار کردہ وہ فیک نیوز ہے جس کا جھوٹا ہونا ثابت ہوچکا ہے۔ انہوں نے زور دے کر کہا کہ یوں لگتا ہے کہ اس بل کے پاکستان مخالف حصوں کا ڈرافٹ امریکہ میں سرگرم بھارتی لابی نے تیار کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ افغانستان سے امریکی اور اتحادی افواج کے انخلا کے بعد پاکستان کے لیے بیش بہا تزویری مواقع پیدا ہوئے ہیں۔