لاہو ر (این این آئی) حکومت پنجاب کی جانب سے پنجاب بھر کے شہریوں کے لئے ہیلتھ انشورنس کا بڑا منصوبہ تیار کر لیا گیا ہے جس کے تحت 332 بیلین کی کثیر رقم مختص کی جائے گی۔ اس اسکیم میں پنجاب کے تمام تر 36 اضلاع شامل ہیں۔ منصوبے کا مقصد تمام شہریوں کو صحت کی یکساں سہولیات کی فراہمی ممکن بنانا ہے۔ ان خیالات کا اظہار پلاننگ اینڈ ڈویلپمنٹ بورڈ پنجاب کے
چیئرمین عبداللہ خان سنبل نے گزشتہ روز منعقدہ ایک اہم اجلاس میں کیا۔ تمام متعلقہ صوبائی سیکرٹریز، ممبر پی اینڈ ڈی بورڈ اور متعلقہ اداروں کے نمائندوں نے اجلاس میں شرکت کی۔انہوں نے کہا کہ اس اسکیم کا مقصد شہریوں کی ہیلتھ انشورنس ہے تاکہ انہیں اندرون خانہ حفظان صحت کی سہولیات فراہم ہوں اور صحت پر ہونے والے لمبے چوڑے اخراجات سے چھٹکارا حاصل ہو۔ پریس ریلیز کے مطابق اس سے قبل مشاورتی اجلاس ایس ایچ سی او مانیٹرنگ اینڈ ای ویلیو ایشن ڈیپارٹمنٹ، فننانس ڈیپارٹمنٹ اور پلاننگ اینڈ ڈویلپمنٹ میں جاری رہے۔ بورڈ آف ڈائریکٹرز کی جانب سے پی سی 1 کے ہیلتھ انشورنس کے لئے 332 بیلین کی سفارشات پیش کی گئیں اور پلاننگ اینڈ ڈویلپمنٹ بورڈ میں ایس ایچ سی اور مانیٹرنگ اینڈ ای ویلیو ایشن کی وساطت سے جمع کروائی گئی۔ جاری شدہ پریس ریلیز کے مطابق پنجاب کے تمام 36 اضلاع میں 100 فیصد آبادی کے لیے ہیلتھ انشورنس کا نفاذ دسمبر 2021 تک مکمل ہونے کے امکانات موجود ہیں۔ عبداللہ خان سنبل کی جانب سے اسکیم کی کامیابی کے لئے تمام اسٹیک ہولڈرز کے تحرک کو بھرپور سراہا گیا اور اس امر کا اظہار کیا گیا کہ اسٹیک ہولڈرز کی تمام تر کاوشیں اس اسکیم کی کامیابی کے لئے اہم سنگ میل ثابت ہونگی۔عبداللہ خان سنبل کے مطابق اسکیم کو مکمل کامیاب بنانے کے لئے ہر حوالے سے جائزہ لیا گیا ہے،
منصوبہ بندی پر عمل درآمد یقینی بناتے ہوئے پروگرام کے ہموار نفاذ کے لیے اسے اولین ترجیحات میں شامل کیا جائے اور تمام تر پیشہ ورانہ صلاحیتوں کو بروئے کار لانا ہوگا۔ انہوں نے مزید کہا کہ مضبوط روابط اس اسکیم کے کامیاب نفاذ میں اہم کردار ادا کریں گے۔انہوں نے مزید کہا کہ انتظامی محکمہ اور پی ایچ آئی ایم سی، عملدرآمد ایجنسیوں کے طور پر مضبوط عمل درآمد کے لیے
تمام اقدامات اپنائیں اور پی ایچ آئی ایم سی کے بورڈ ممبران کو پروگرام کے نفاذ کی نگرانی کرنی چاہیے۔ انہوں نے مشورہ دیا کہ ایس ایچ سی اور ایم ای ڈیپارٹمنٹ کو بھی نئے ہسپتالوں کے قیام کے حوالے سے سیکٹرل پالیسی پر اپنے کام کا مکمل جائزہ لینا چاہیے تاکہ جاری اقدامات کی تکمیل پر توجہ مرکوز کی جا سکے اور بعد میں اس کو دستاویزی شکل دی جائے۔ انہوں نے کہا کہ منصوبے کی موثر تکمیل کے لئے ہمیں تجربہ کاروں سے تکنیکی راہنمائی درکار رہے گی۔