کابل(این این آئی)گیارہ ماہ سے طالبان کیساتھ دوحہ مذاکرات میں شریک خواتین کے حقوق اور اسلامی قوانین کی ماہر فاطمہ گیلانی نے کہاہے کہ فغانستان کے سنگین بحران کے ذمہ داراشرف غنی اور جو بائیڈن ہیں۔میڈیارپورٹس کے مطابق26 اگست کو کابل ایئرپورٹ پر 100 سے زائد افراد کی ہلاکت کا سبب بننے والے بم دھماکے سے کچھ دیر قبل فاطمہ گیلانی سے ان کی ملک کی
صورتحال اور ان کے احساسات کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہاکہ میں شدید صدمے میں ہوں کیونکہ ہمارا ملک اقتدار کی منتقلی کے مرحلے سے بہت قریب تھا کہ اشرف غنی صاحب نے تمام چیزوں کو تباہ کر دیا۔ انہوں اپنی دولت کو محفوظ کرنے کے لیے تمام سیاسی عمل کو برباد کر دیا، ان کی اچانک روانگی سے جو افراتفری پھیلی اس کے نتیجے میں جو بحران مچا وہ تمام دنیا کے سامنے ہے۔ فاطمہ سے یہ پوچھا گیا کہ گرچہ اس بارے میں مختلف افواہیں گردش کر رہی ہیں کہ اشرف غنی اور ان کے قریبی معاون کار جیسے کے ان کے سابق مشیر برائے سلامتی امور حمد اللہ محب بریف کیسوں میں ڈالر بھر کر اپنے ساتھ لے کر ملک سے نکل لیے، کیا یہ حقیقت ہے؟اس کے جواب میں فاطمہ کاکہنا تھاکہ اس کی تحقیقات ہونی چاہییں لیکن سوال یہ ہے کہ انہیں اتنی جلدی کیوں تھی جب انہیں اس کا یقین تھا کہ طالبان دوہفتوں تک کابل میں داخل نہیں ہوں گے، تب یہ اجلت کیسی؟ میں صرف یہ کہنا چاہتی ہوں کہ اس غدار کو کسی بھی صورت بغیر سزا کے نہیں چھوڑا جانا چاہیے۔ فاطمہ گیلانی نے مزید کہا کہ افغانستان کی تمام تر
صورتحال کا ذمہ دار کسی ایک شخص کو نہیں ٹھہرایا جا سکتا کیونکہ افغانستان میں گزشتہ چار دہائیوں سے جاری جنگ اور تشدد کے واقعات کے ذمے داروں کی ایک پوری کڑی ہے۔ تاہم فاطمہ کا کہنا تھا،”حالیہ بحران اور افراتفری اور تباہی یقینا اشرف غنی کی غلطیوں کا نتیجہ ہے۔فاطمہ گیلانی نے اپنے انٹرویو میں واضح الفاظ میں کہا کہ وہ افغانستان میں کسی غیر ملکی فوجی کو
نہیں دیکھنا چاہتی تھیں۔ ان کا کہنا تھاکہ میں سب سے پہلے امن چاہتی تھی۔ جب ہم نے غیر ملکی افواج کے منظم ترتیب وار انخلا کے بارے میں بات کی تو ہمارا مطلب ہر گز یہ نہیں تھا کہ نیٹو فوجی تمام عمر افغانستان میں رہیں۔ ہر گز نہیں۔ آپ نے دوحہ میں افغانستان طالبان کے ساتھ ایک معاہدہ طے کیا تھا اور سیاسی تصفیہ اس کا حصہ تھا۔ کہاں گیا یہ سیاسی تصفیہ، کہاں ہے یہ؟