کابل (این این آئی)افغانستان کے دارالحکومت کابل میں انتقالِ اقتدار اور حکومت کی تشکیل کیلئے طالبان رہنما قندھار سے کابل پہنچنا شروع ہوگئے۔میڈیارپورٹس کے مطابق طالبان کے سابق وزیر عدل و انصاف ملا نورالدین ترابی نے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ کابل میں سیاسی رہنماوں سے مذاکرات کیلئے پہلے ہی ملا برادر پہنچ چکے ہیں۔ملا نورالدین ترابی نے بتایا کہ طالبان قیادت سیاسی قائدین
سے حکومت سازی پر کابل میں بات چیت کرے گی۔طالبان کے سابق وزیر قانون و انصاف ملا نورالدین ترابی بھی کابل روانہ ہوگئے۔واضح رہے کہ طالبان کے سیاسی دفتر کے ترجمان سہیل شاہین کا اپنے ایک بیان میں کہنا تھا کہ افغانستان میں کوئی آئین نہیں ہے، نیا آئین تیار کرکے منظور کیا جائے گا۔افغانستان کا کنٹرول حاصل کرنے والے طالبان گروپ کے اہم ترین کمانڈر نے کہا ہے کہ ملک میں جمہوری طرز حکمرانی نہیں بلکہ شرعی نظام حکومت نافذ کیا جائے گا۔میڈیارپورٹس کے مطابق اہم ترین کمانڈر اور ممکنہ طور پر طالبان کی نئی حکومت میں اہم عہدے پر براجمان ہونے والے وحید اللہ ہاشمی نے بتایاکہ افغانستان میں حکومت کے نفاذ کے لیے مشورے جاری ہیں اور ممکنہ طور پر اس مرتبہ بھی کونسل کی طرح حکومت کو چلایا جائے گا۔ انٹرویو میں وحید اللہ ہاشمی کا کہنا تھا کہ اس بات کے کوئی امکانات نہیں ہیں کہ افغانستان میں جمہوریت طرز کی حکومت نافذ کی جائے۔ان کے مطابق افغانستان کو کونسل طرز کی شرعی نظام حکومت کے تحت چلایا جائے گا اور ہیبت اللہ اخونزادہ سپریم لیڈر کا کردار ادا کریں گے۔اقتدار پر کنٹرول کرنے والے گروپ کے اہم ترین کمانڈر کا کہنا تھا کہ طالبان ارکان سابق افغان فوجیوں اور خصوصی طور پر جنگی پائلٹس کی تلاش میں ہیں، انہیں ڈھونڈ کر نئی بننے والی کونسل فوج میں شمولیت کی دعوت دی جائے گی،
کیوں کہ طالبان حکومت کو جدید ہیلی کاپٹر اور ایئرکرافٹس چلانے والے پائلٹس کی ضرورت پڑے گی۔انہوں نے افغانستان میں جلد قائم کی جانے والی ممکنہ حکومت کا نقشہ کھینچتے ہوئے بتایا کہ اس مرتبہ بھی طالبان کی ماضی کی حکومت سے ملتا جلتا نظام نافذ کیا جائے گا، جیسے ماضی میں 1996 سے 2001 تک ملا عمر سپریم لیڈر
تھے، اسی طرح اب بھی حکومت کے اعلی احکامات سپریم لیڈر ہی دیں گے اور حکومت کو کونسل کے ذریعے چلایا جائے گا۔وحیداللہ ہاشمی کا کہنا تھا کہ امکان یہی ہے کہ ہبت اللہ اخونزادہ سپریم لیڈر بنیں گے جب کہ ان کا نائب مقرر ہونے والا ممکنہ طور پر صدر کا عہدہ سنبھالے گا۔خیال کیا جا رہا ہے کہ طالبان کے سپریم لیڈر کے تین نائب
ہوں گے، جن میں ملا عمر کے بیٹے ملا یعقوب، طاقتور حقانی نیٹ ورک گروپ کے سربراہ سراج الدین حقانی اور دوحہ میں طالبان کے سیاسی دفتر کے ترجمان عبدالغنی برادر شامل ہیں۔طالبان کمانڈر کے مطابق اگرچہ ابھی نظام حکومت سے متعلق کچھ واضح نہیں ہے مگر یہ طے ہے کہ یہاں جمہوری نہیں بلکہ شرعی نظام لاگو ہوگا اور
طالبان حکومت کی کوشش ہے کہ نئی قومی فوج میں سابق افغان فوجیوں کو بھی شامل کیا جائے۔انہوں نے یہ بھی بتایا کہ اس میں بھی کوئی دو رائے نہیں کہ فوج میں بہتری کے لیے کچھ تبدیلیاں کی جائیں گی مگر وہ چاہیں گے کہ سابق افغان فوجی بھی ان کا ساتھ دیں۔ان کے مطابق افغان ایئر فورس کے پائلٹ اور ترکی، جرمنی و انگلینڈ سے
تربیت حاصل کرنے والے فوجیوں کو بھی نیشنل فورس میں شمولیت اختیار کرنے کی دعوت دی جائے گی اور اس ضمن میں انہیں تلاش کرکے ان سے رابطے کیے جا رہے ہیں۔کمانڈر نے یہ بھی کہا کہ طالبان کو امید ہے کہ پڑوسی ممالک حالیہ دنوں میں افغانستان سے وہاں جانے والے ہیلی کاپٹرز اور فوجی طیارے واپس کریں گے۔انہوں نے ازبکستان جانے والے 22 فوجی طیاروں اور 24 ہیلی کاپٹرز کا حوالہ بھی دیا جو گزشتہ ہفتے کے آخر
میں افغانستان سے وہاں پہنچے تھے۔خیال رہے کہ طالبان نے 15 اگست کو کابل میں صدارتی محل پر کنٹرول کرنے کے بعد وہاں کے انتظامات سنبھالے تھے اور افغانستان کے صدر اشرف غنی ایک دن قبل ہی وہاں سے فرار ہوگئے تھے۔تقریبا ایک ہفتہ گزرجانے کے باوجود تاحال واضح نہیں ہوسکا کہ افغانستان میں کس طرح کی طرز حکومت تشکیل دی جائے گی لیکن اب کمانڈر نے وہاں کی ممکنہ حکومت کا نقشہ پیش کیا ہے۔