تاشقند (این این آئی)وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ کسی بھی ملک نے افغان طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے کیلئے پاکستان سے زیادہ کوششیں نہیں کیں، افغانستان میں جو کچھ ہورہا ہے اس کا الزام پاکستان پر دھرنا انتہائی نا انصافی ہے،امن میں دلچسپی نہیں ہوتی تو کابل کیوں جاتا،پاکستان نے گزشتہ 15 برسوں میں 70 ہزار جانوں کا نقصان اٹھایا ہے،
پاکستان میں 30 لاکھ افغان پناہ گزین موجود ہیں اور ہم مزید پناہ گزینوں کی آمد کے خدشے سے خوفزدہ ہیں ،ہمارے پاس گنجائش اور معاشی صلاحیت نہیں ،جب طالبان کو فتح کا یقین ہے تو ہماری بات کیوں سنیں گے؟،پاکستان، بھارت کے تنازعات حل ہونے سے پورا خطہ تبدیل ہوجائے گا۔ جمعہ کوازبکستان کے دارالحکومت تاشقند میں وسطی اور جنوبی ایشیا کے ممالک کے درمیان تعلقات کو مضبوط بنانے کے لیے کانفرنس کا انعقاد کیا گیا جس میں وزیراعظم عمران خان، ازبک صدر شوکت، افغان صدر اشرف غنی سمیت خطے کے ممالک کے اہم عہدیداران اور بین الاقوامی اداروں کے سربراہان نے شرکت کی۔کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے افغانستان کے صدر اشرف غنی کی جانب سے افغان تنازع میں پاکستان کے منفی کردار کی نشاندہی پر جواب دیتے ہوئے کہا کہ میں آپ کو بتانا چاہتا ہوں کہ افغانستان میں گڑبڑ سے جو ملک سب سے زیادہ متاثر ہوگا وہ پاکستان ہے۔انہوں نے کہا کہ پاکستان نے گزشتہ 15 برسوں میں 70 ہزار جانوں کا نقصان اٹھایا ہے، تنازع میں اضافہ وہ سب سے آخری چیز ہوگی جو پاکستان چاہے گا۔وزیراعظم نے کہا کہ ہماری معیشت بالآخر بحالی کی جانب گامزن ہے، اور ہم سب سے مشکل ترین ادوار میں سے ایک سے گزرے ہیں۔انہوں نے کہا کہ میں دوبارہ دہراتا ہوں افغانستان میں گڑبڑ وہ آخری چیز ہوگی جو پاکستان چاہے گا،
میں آپ کو اس بات کا یقین دلاتا ہوں کہ کسی ملک نے طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے کے لیے پاکستان سے زیادہ کوششیں نہیں کیں۔ انہوںنے کہاکہ پاکستان میں طالبان کے خلاف فوجی کارروائی میں کمی کے ساتھ ہم نے انہیں مذاکرات کی میز پر لانے کی ہر کوشش کی ہے تا کہ ایک پر امن تصفیہ ہوسکے۔وزیراعظم نے کہا کہ
افغانستان میں جو کچھ ہورہا ہے اس کا الزام پاکستان پر دھرنا انتہائی نا انصافی ہے، میں کابل گیا، اگر مجھے امن میں دلچسپی نہیں ہوتی تو میں کابل کیوں جاتا۔انہوںنے کہاکہ تمام تر مقصد یہ تھا کہ ہم پاکستان کو امن میں شراکت دار دیکھیں، مجھے بہت مایوسی ہوئی کہ افغانستان میں جو کچھ ہورہا ہے اس کا الزام پاکستان پر لگایا گیا۔انہوں نے
کہا کہ افغانستان میں جو کچھ ہورہا ہے وہ 2 دہائیوں سے جاری تنازع، گہری تقسیم کی وجہ سے ہورہا ہے اور بدقسمتی سے امریکا نے عسکری حل کی کوشش لیکن وہ نہیں جیتے۔انہوں نے کہا کہ جب افغانستان میں ہزاروں نیٹو فوجی، بہترین فوجی مشین تھی، وہ وقت تھا کہ طالبان کو مذاکرات کی میز پر آنے کو کہا جاتا، طالبان اب کیوں
سمجھوتہ کریں گے جب فوجوں کے انخلا کی حتمی تاریخ دی جاچکی ہے اور صرف چند ہزار امریکی فوجی باقی رہ گئے ہیں۔وزیراعظم نے کہا کہ جب طالبان کو فتح کا یقین ہے تو وہ ہماری بات کیوں سنیں گے۔ انہوں نے کہاکہ میںری ازبکستان کے صدر سے بھی اس حوالے سے طویل بات چیت ہوئی کہ ہم تمام پڑوسی ممالک مل کر کس
طرح افغانستان میں امن اور سیاسی تصفیے میں مدد کریں کیوں کہ یہ ہم سب کے مفاد میں ہے۔وزیراعظم نے دہرایا کہ پاکستان میں 30 لاکھ افغان پناہ گزین موجود ہیں اور ہم مزید پناہ گزینوں کی آمد کے خدشے سے خوفزدہ ہیں کیوں کہ ہمارے پاس گنجائش اور معاشی صلاحیت نہیں ہے کہ پناہ گزینوں کی ایک اور آمد برداشت کرسکیں۔انہوں
نے کہا کہ میں آپ کو ایک مرتبہ پھر یقین دلاتا ہوں کہ اگر دنیا کے تمام ممالک میں سے کوئی ایک ملک سب سے زیادہ کوششیں کررہا ہے تو وہ پاکستان ہے۔کانفرنس میں تقریر کا آغاز کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ حل طلب تنازعات کی وجہ سے خطہ ٹکڑوں میں بٹا رہا اور دہائیوں تک متحد نہ ہوسکا۔انہوں نے کہا کہ افغانستان وسطی اور
جنوبی ایشیا کے درمیان قدرتی زمینی پل ہے اور یہاں امن کا قیام خطے کے درمیان رابطوں کو خواب سے حقیقت میں بدلنے کے لیے انتہائی اہم ہے۔انہوں نے کہا کہ افغانستان میں استحکام ہماری سب سے بڑی ترجیح ہے کیوں کہ یہ براہ راست ہمیں متاثر کرتی ہے، پاکستان امن و تصفیے کے لیے تعمیر نو اور معاشی ترقی سمیت تمام منصوبوں کی حمایت کرتا رہے گا۔وزیراعظم نے کہا کہ رابطوں کے اس منصوبے میں دوسرا سب سے بڑا چیلنج پاکستان اور
بھارت کے درمیان علاقائی غیر حل شدہ تنازعات ہیں۔انہوں نے کہا اگر پاکستان اور بھارت مسئلہ کشمیر کو حل کرلیں تو پورا خطہ تبدیل ہوجائے گا ایک جانب بھارت کی بڑی منڈی ہوگی، دوسری جانب چین اور ایک جانب پاکستان ہوگا لیکن بدقسمتی سے تنازعات کی وجہ سے صلاحیتیوں سے فائدہ نہیں اٹھایا جاسکا۔ہم افغانستان کے تمام ہمسایہ ممالک کے علاوہ علاقائی اور بین الاقوامی استیک ہولڈرز کی مذاکراتی تصفیے میں سہولت فراہم کرنے کے لیے حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔