اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک) امریکی اور نیٹو افواج 20سال بعد بالآخر افغانستان کی بگرام ایئربیس سے رُخصت ہوگئیں، اب پورے ملک کو بے یقینی نے گھیر لیاہے۔روزنامہ جنگ میں ماریانہ بابر کی خبر کے مطابق انٹرنیشنل کرائسسز گروپ کی رپورٹ میں کہاگیاہےکہ افغانستان سے غیر ملکی افواج کے انخلا کیساتھ ہی پاکستان کو نئی مشکلات کا سامنا ہے، مذاکرات کا غیر معینہ تعطل واشنگٹن اور
کابل سے تعلقات متاثر ہوسکتے ہیں، طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانا پاکستان کے مفاد میں ہے،گو کہ پاکستان اس انخلاء کے بعد پیدا ممکنہ صورتحال سے نمٹنے کے لئے کئی منصوبوں پر کام کر رہا ہے لیکن کسی کو بھی ان کے متوقع اثرات کا علم نہیں،چین چاہے گا اسلام آباد طالبان کی فتح کے بجائے زیادہ مستحکم نتائج کیلئے کام کرےطالبان بھی اپنے مطالبات میں اعتدال لائیں۔انٹرنیشنل کرائسسز گروپ (آئی سی جی) کی رپورٹ کے مطابق کابل میں دہائیوں سے قائم شکوک و شبہات کی فضا اور بدگمانیوں پر قابو پانے کے لئے ضروری ہے کہ پاکستان افغانستان کو اپنے زیراثر یا زیرنگرانی علاقہ تصور نہ کرے اور وہاں اپنے پٹھو بنانے سے باز آ جائے۔رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اگر افغان تنازع جاری رہا تو پاکستان پڑوس میں ہونے کی وجہ سے نہ صرف بہت کچھ بلکہ خود افغانستان کو کھو دے گا، پاکستان کی عسکری قیادت کو مذاکرات میں غیرمعینہ تعطل اور افغان حکومت سے بڑھتی ہوئی کشیدگی پر تشویش ہے جس کے نتیجے میں پاک- امریکا تعلقات کو نقصان پہنچ سکتا ہےلہٰذا یہ پاکستان کے مفاد میں ہے کہ وہ ضرورت پڑنے پر طالبان
کودبائو میں لے کر امن مذاکرات میں تعطل کو دُور کرے۔ طالبان کوچاہئے کہ اپنے مطالبات میں اعتدال لائیں اور تشدد کی حوصلہ شکنی کی جائے، پاکستان کے پالیسی ساز اگر اب متحرک نہ ہوئے تو بہت دیرہو جائے گی، افغانستان کے لئے سیاسی تصفیہ کی ضرورت ہے جس میں کابل انتظامیہ اور طالبان دونوں کا کردار ہو، افغان طالبان کو پاکستان مخالف عناصر سے قطع تعلق کرنا ہوگا۔رپورٹ میں
چین کی نشاندہی کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ پاکستان کے ساتھ اس کے قریبی تعلقات ہیں، وہ خطے میں استحکام کے لئے اسلام آباد سے مل کر کام کرنے کو ترجیح دے گا۔ چین نہیں چاہے گا کہ طالبان کو قطعی کامیابی حاصل ہو اور ان کی حکمرانی کی راہ ہموار ہو، امن عمل ناکام ہوا تو خانہ جنگی کا خدشہ بڑھ جائے گا اور پاکستان میں افغان پناہ گزینوں کا سیلاب اُمڈ آئے گا۔ افغانستان میں تشدد سے
پاکستان بھی متاثر ہوگا اور پاک افغان سرحدی علاقہ پرتشدد سرگرمیوں کی آماجگاہ بن جائے گا۔آئی سی جی نے خبردار کیا کہ بدترین منظر کابل پر طالبان کا قبضہ ہو سکتا ہے، لہٰذا طالبان سے معاملہ طے کرنے کا پاکستان کے لئے وقت آ گیا ہے۔اب تک تو اسلام آباد طالبان کو مذاکرات پر آمادہ کرتا رہا ہے تاہم امن مذاکرات میں پیش رفت کے نتیجے میں پاکستان کے کابل انتظامیہ سے تعلقات بہتر ہوں گے، یہ تشویش بھی دُور ہو جائے گی کہ بھارت افغانستان میں پاکستان کے مفادات کو زک پہنچائے گا، ساتھ ہی خطے میں دیگر حکومتوں کو بھی طالبان پر دبائو ڈالنا چاہئے۔