جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ کا وزیراعظم کو مناظرے کا چیلنج، آپ کو یہ بھی اچھا نہیں لگا کہ آپ کو ڈی چوک پر 126 دنوں کی ”ڈانس پارٹی“ یاد دلائی جائے

30  جون‬‮  2021

اسلام آباد (آن لائن)سپریم کورٹ کے سینئر جج جسٹس فائز عیسیٰ کی اہلیہ سرینا عیسیٰ نے وزیر اعظم عمران خان کے نام ایک خط تحریر کیا ہے جس میں انہوں نے کہا کہ 25 جون 2021 ء کو میرے والد کی پہلی برسی تھی اس دن مجھے آپ کی حکومت کی جانب سے 8 نوٹس موصول ہوئے، نوٹسز کے مطابق سپریم کورٹ میں کوئی درخواست جمع کی گئی ہے،

یا کی جا رہی ہے لیکن مجھے معلوم نہیں کہ وہ کیا ہے کیونکہ مجھے اس کی کوئی نقل نہیں دی گئی۔ ایک سال قبل 25 جون 2020 ء کو، یعنی وہ دن جس دن میرے والد کا انتقال ہوا، ایف بی آر نے جواب پی ٹی آئی کے مرزا شہزاد اکبر کی خدمت پر مامور ہے، الزام لگایا کہ میں نے اس کا نوٹس وصول کرنے سے انکار کیا، مجھے اپنے والد کے انتقال کا سوگ منانے بھی نہیں دیا گیا کیونکہ مجھے 9 نوٹس دیئے گئے جن کا میں نے بہت ہی قلیل مدت میں جواب دیا اور میں نے ذاتی طور پر ایف بی آر کے دفاتر میں حاضری بھی دی۔اور اس سے ایک سال قبل 2019 ء میں میرے شوہر جسٹس قاضی فائز عیسی کے خلا ف ایک ایسے وقت میں ریفرنس دائر کیا جب میرے والد کا ایک بہت مشکل آپریشن ہوا تھا (ایک کینسر زدہ گردہ اور ایک بڑی کینسر کی رسولی نکالنے کے لئے) جبکہ میری بیٹی جسے دل کی رفتار تیز ہونے کی بیماری تھی بچی کو جنم دینے والی تھی۔ مجھ پر یہ بات واضح ہو چکی ہے کہ یہ کام یوں ترتیب دیئے گئے تھے اور اس مہارت سے ان کا وقت متعین کیا گیا تھا کہ میرے شوہر پر زیادہ سے زیادہ نفسیاتی دباؤ ڈالا جا سکے اور انہیں استعفٰی دینے پر مجبور کیا جا سکے۔ بدنیتی پر مبنی ان کاموں نے یقینی بنایا کہ میرے شوہر مسلسل تیسرے سال گرمیوں کی چھٹیاں نہیں لے سکے اور ایسا کرنے والے وہ سپریم کورٹ کے بلکہ شاید پاکستان کے واحد جج ہیں اور میں بھی ابھی تک کراچی میں اپنے والد کی قبر پر نہیں جا سکی۔

ہماری مصیبتیں اس وقت شروع ہوئیں جب میرے شوہر نے ”فیض آباد دھرنا“ کیس کا فیصلہ دیا۔ آپ کی پی ٹی آئی حکومت اور اتحادی ایم کیو ایم کو یہ اچھا نہیں لگا کہ 12 مئی 2007 ء کا دن یاد دلایا جائے جب کراچی کی گلیوں میں شہریوں کا بے دردی سے قتل کیا گیا تھا۔ آپ کو بھی اچھا نہیں لگا کہ آپ کو ڈی۔ چوک پر اپنی 126 دن کی ”ڈانس پارٹی“ یاد دلائی جائے۔

اور آپ کو یہ برا لگا کہ میرے شوہر کو جو پلاٹس دیئے جانے تھے انہوں نے ان کو لینے سے انکار کیا جبکہ آپ تو پلاٹ لیتے گئے، ایک تو جھوٹا بیان حلفی جمع کر کے آپ کی کوئی جائیداد نہیں ہے، وزیر اعلی پنجاب سے اور ایک اور اس وقت کے وزیر اعظم سے۔ یا شاید ہمیں اس وجہ سے ہدف بنایا جا رہا ہے کہ ہم نے برسرعام اپنے اثاثے (سپریم کورٹ کی ویب سائٹ) پر

ظاہر کر دیئے ہیں جس سے آپ کو اور آپ کے ساتھیوں کو شرمندگی محسوس ہوتی ہے کیونکہ آپ اور آپ کی حکومت کے کئی افراد ٹیکس یا تو دیتے ہی نہیں یا بہت کم دیتے ہیں اور اپنے بے تحاشہ اثاثوں کی وضاحت پیش نہیں کر سکتے۔ سرینا عیسیٰ نے مزید لکھا کہ 27 مئی 2021 ء کو میں نے آپ کو اور آپ کے وزیر قانون فروغ نسیم صاحب کو لکھا: حکومت کی

جانب سے جاری کی گئی ایک پریس ریلیز کے مطابق میرے خلاف سپریم کورٹ میں کوئی درخواست جمع کرائی گئی ہے۔ میں نے سپریم کورٹ میں اپنا کیس خود لڑا تھا اور میں نے یہ سیکھا تھا کہ میری جانب سے کچھ بھی جمع کرانے سے قبل مجھ سے یہ مطلوب ہوتا تھا کہ نقول سمیت اس کا نوٹس دوسرے فریقوں کو دوں۔تاہم جو کچھ دائر کیا گیا ہے میں نے نہ ہی اس کا کوئی

نوٹس اور نہ ہی کوئی نقل وصول کی ہے۔ براہ کرم جو کچھ سپریم کورٹ میں دائر کیا گیا ہے مجھے اس کی نقل فراہم کر دیں۔ اس موقع پر میں آپ سے یہ بھی کہنا چاہتی ہوں کہ براہ کرم میری پیٹھ پیچھے میرے خلاف کارروائی کرنے سے باز آ جائیں جیسے ماضی میں کی گئی تھی اور جیسے آپ نے ایک دفعہ پھر کیا ہے۔ جن نقول کا میں نے مطالبہ کیا تھا وہ تاحال مجھے نہیں

دی گئیں نہ ہی مجھے جواب دینے کی زحمت گوارا کی گئی۔ براہ مہربانی مجھے یہ بھی بتا دیں کہ مجھے 8 نوٹسز دینے کا مقصد کیا ہے جبکہ وہ چیز جو دائر کی گئی (یا کی جائے گی) مجھ سے چھپائی گئی ہے؟ جب میرے خلاف ایک حکم جاری کیا گیا (مجھے نوٹس دیئے بغیر اور مجھے سنے بغیر) تو میں نے اس پر نظرثانی کی درخواست کی اور 30 دنوں کی مقررہ مدت

کے اندر اور کسی وکیل کے بغیر خود نظرثانی درخواست نمبر 2020/298 دائر کی۔ تاہم مجھے پریس سے معلوم ہوا کہ رجسٹرار نے (جو ڈیپوٹیشن پر آیا ہوا ایک حکومتی ملازم ہے) آپ کے لئے 30 دن کی مقررہ مدت میں توسیع کر دی ہے۔مدت میں یہ توسیع قابل فہم ہے کیونکہ فروغ نسیم صاحب نہایت مصروف رہتے ہیں، جزوقتی وکیل، جزوقتی وزیر قانون اور

ہر وقت اپنے لیڈر کی خوشامد کرتے ہوئے، جیسا کہ اسے نیلسن منیڈیلا سے تشبیہ دینا۔ موصوف اپنے آئینی اور قومی خزانے کا غلط استعمال کرتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ میں بہت خوش قسمت ہوں کیونکہ اپنے شوہر کی موت پر مجھے ستی نہیں ہونا پڑے گا اور ان کی چتا کے ساتھ جلائے جانے سے بچ کر میں ان کی پنشن بھی لے سکوں گی۔ عمران خان صاحب، جب انصاف آپ

کی پارٹی کا نام ہے تو مجھے اس پر نکتہ چینی کا کیا حق ہے کہ آپ کو کچھ زیادہ ہی انصاف ملے۔ کیا ”اینیمل فارم“ کے نپولین کی طرح آپ بھی اعلان کرتے ہیں کہ ”کچھ جانور دوسروں سے زیادہ برابر ہوتے ہیں“؟وزیر قانون میری پیٹھ پیچھے میرے خلاف بغیر دستخط کئے پریس ریلیز جاری کرتے ہیں۔ آپ نے عملاً آئین کی دفعہ 19 کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا ہے اور

آپ نے میڈیا کے لئے سانس تک لینا دشوار کر دیا ہے۔ میرے خلاف بیانئے کو کنٹرول کیا جاتا ہے اور میڈیا کو دباؤ میں لا کر کوشش کی جاتی ہے کہ وہ بھی آپ کی ترجمان بن جائے، اس زبان دراز خاتون کی طرح جس میں سیاسی وفاداری نام کی کوئی چیز نہیں ہے جسے آپ نے توہین عدالت کے ارتکاب پر اعزاز سے نوازا اور جو بہت مہارت کے ساتھ اب اپنی مکے بازی کی

صلاحیتوں کا اظہار کرتی ہے۔ معاوضے پر کام کرنے والے فسادی لوگ سوشل میڈیا پر مجھے برا بھلا کہتے ہیں۔انور منصور خان جیسے لوگ جن میں یہ ہمت نہیں ہوتی کہ وہ عدالت میں میرا سامنا کرتے، ان کو کہا گیا کہ وہ یوٹیوب پر سپانسر سدہ لوگوں کو انٹرویو دیں اور اوہ اس حکم کی تعمیل میں میری پیٹھ پیچھے یہ کر گزرتے ہیں،ہمارا کیس براہ راست نشر کرنے

کی درخواست کی آپ نے مخالفت کی کیونکہ سچائی کے سامنے ان جھوٹی کہانیوں کی حقیقت واضح ہو جاتی جو میرے شوہر اور میرے متعلق گھڑی گئیں اور صدر صاحب اب بھی آپ کی پارٹی کا جھنڈا اٹھائے ہوئے ایوان صدر میں انٹرویو دیتے ہیں جن میں انہوں نے زیر سماعت مقدمات کے بارے میں اپنے خیالات کااظہار کیا اور یہ بھول گئے کہ آئین ان سے مکمل

غیر جانبداری اور سب سے غیر وابستگی کا تقاضا کرتا ہے۔ جب سارے حربے ناکام ہوجائیں، تو پھر موت کی دھمکی کا وہی پرانا بزدلانہ طریقہ رہ جاتا ہے میں پولیس کے پاس مرزا افتخار الدین کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے گئی جس نے ایک ویڈیو میں تفصیل سے بتایا تھا کہ میرے شوہر کو کیسے قتل کیا جائے گا لیکن آپ کے وزیر نے مداخلت کر کے

ایف آئی آر کا اندراج روک دیا۔ سپریم کورٹ نے جب نوٹس لیا تو چھ دن کے بعد ایف آئی اے نے (نہ کہ پولیس نے) ایف آئی آر درج کی۔ یوں ایک دہشت گرد کا تحفظ کیا گیا۔ ایف آئی اے کے ر ڈی جی کو جنہوں نے قانون کی خلاف ورزی سے انکار کیا تھا تبدیل کر کے ان کی جگہ اس شخص کو لایا گیا جسے خود آپ نے چنا۔ پی ٹی آئی کے کرتا دھرتا مرزا شہزاد اکبر نے

جو نیب میں 8135 روپے کی تنخواہ پر ملازمت کرتا تھا لیکن پھر راتوں رات دولت بھی حاصل کر لی اور منصب بھی غیر قانونی طور پر اثاثہ جات ریکوری یونٹ قائم کیا اور وہ اس بات کو چھپا رہا ہے کہ 20% انعامی رقم کہاں جاتی ہے؟ اس نے اور ایف آئی اے کے ڈی جی نے جنہیں آپ نے خود چنا تھا مرزا افتخار الدین کے 19 فارن کرنسی اکاؤنٹ اس کے موبائل فون

کے ریکارڈ ، حکومتی اعلی عہدیداروں سے اس کے رابطوں اور اس کے ذرائع آمدن ظاہر کرنے سے روک دیا اور یہ حقیقت بھی چھپا دی کہ اپنے اصلی قومی شناختی کارڈ میں اس نے خود کو غیر مسلم ظاہر کیا ہے لیکن اپنی ویڈیو میں وہ خود کو ایک مسلمان عالم کے طور پر پیش کرتا ہے۔کیا پاکستان اس لئے ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ میں ہے کہ دہشتگردں کو بچایا

جاتا ہے اور مرزا شہزاد اکبر 190 ملین پاؤنڈز کے اور اس طرز کے سمجھوتے کرتا ہے؟میرا خیال تھا کہ پستی کی آخری سطح تک بات پہنچ گئی ہے لیکن مجھے غلط ثابت کیا گیا میرے شوہر سے نفرت کا نتیجہ تاریخ کو مسخ کرنے کی صورت میں نکلا ہے اور ان کے مرحوم والد کو بھی نہیں چھوڑا گیا۔ میرے شوہر کے والد قاضی محمد عیسی قائد اعظم کے قریب ترین

ساتھیوں اور تحریک پاکستان کے صف اول کے سرکردہ رہنماؤں میں سے تھے، لیکن اب معاوضے پر کام کرنے والے فسادی لوگ اور یوٹیوبرز ان پر غداری کا لیبل چسپاں کرتے ہیں۔ قاضی محمد عیسٰی کو صرف وہی لوگ غدار کہہ سکتے ہیں جو پاکستان کو تباہ کرنا چاہتے ہیں۔ مرزا عبدالوحید ڈوگر کو جو بزعم خود ”آئی ایس آئی کا دلال“ ہے آپ کے مرزا شہزاد اکبر نے

جھوٹ پھیلانے کے لئے کٹھ پتلی کے طور پر استعمال کیا لیکن سپریم کورٹ کے 10 معزز جج صاحبان نے کھلی عدالت میں میری مالیاتی صلاحیت پر مکمل اطمینان کا اظہار کیا، انہوں نے مان لیا کہ میں نے (نہ کہ میرے شوہر نے) لندن جائیدادیں خریدیں اور یہ کہ میں نے قانونی طریقے سے اپنے ذاتی فارن کرنسی اکاؤنٹ سے رقم باہر بھجوائی، ایسے اکاؤنٹ سے، جو آپ کے برعکس،

ایک حقیقی اور موجود بینک میں ہے (سٹینڈر چارٹر بینک)۔سرینا عیسیٰ نے خط میں مزید لکھا کہ جناب عمران خان، اگر آپ اب بھی لندن جائیدادوں کے بار ے میں یا ان کے خریدنے کے متعلق مطمئن نہیں ہیں تو میں آپ سے درخواست کرتی ہوں کہ ٹیلی ویژن پر براہ راست نشریات میں آئیں اور میرا سامنا کریں۔ میں دنیا کو اپنی آمدنی، بچت، ”منی ٹریل“ اور اپنی جانب سے ادا کئے گئے ٹیکس دکھاؤں گی اور آپ سے بھی تو توقع رکھتی ہوں کہ آپ بھی ایسا کریں گے۔ وزیر اعظم صاحب، میں آپ کے جواب کا شدت سے انتظار کر رہی ہوں۔

موضوعات:



کالم



میزبان اور مہمان


یہ برسوں پرانی بات ہے‘ میں اسلام آباد میں کسی…

رِٹ آف دی سٹیٹ

ٹیڈکازینسکی (Ted Kaczynski) 1942ء میں شکاگو میں پیدا ہوا‘…

عمران خان پر مولانا کی مہربانی

ڈاکٹر اقبال فنا کوہاٹ میں جے یو آئی کے مقامی لیڈر…

بھکارستان

پیٹرک لوٹ آسٹریلین صحافی اور سیاح ہے‘ یہ چند…

سرمایہ منتوں سے نہیں آتا

آج سے دس سال قبل میاں شہباز شریف پنجاب کے وزیراعلیٰ…

اللہ کے حوالے

سبحان کمالیہ کا رہائشی ہے اور یہ اے ایس ایف میں…

موت کی دہلیز پر

باباجی کے پاس ہر سوال کا جواب ہوتا تھا‘ ساہو…

ایران اور ایرانی معاشرہ(آخری حصہ)

ایرانی ٹیکنالوجی میں آگے ہیں‘ انہوں نے 2011ء میں…

ایران اور ایرانی معاشرہ

ایران میں پاکستان کا تاثر اچھا نہیں ‘ ہم اگر…

سعدی کے شیراز میں

حافظ شیرازی اس زمانے کے چاہت فتح علی خان تھے‘…

اصفہان میں ایک دن

اصفہان کاشان سے دو گھنٹے کی ڈرائیور پر واقع ہے‘…