کراچی (این این آئی) پاسبان ڈیموکریٹک پارٹی کے چیئرمین الطاف شکور نے کہا ہے کہ حکومت اگر گروی رکھنا چاہتی ہے تو گورنر ہاوس، وزیر اعلی ہاوس، وزیر اعظم ہاوس، اور ایوان صدر کو گروی رکھے۔ مزید پیسوں کی ضرورت ہے تو بنی گالہ محل اور ممبر پارلیمنٹ کے اثاثوں کو گروی رکھا جائے۔لاہور اور کراچی کے بلاول ہاوس اور رائے ونڈ کا محل سب سے پہلے فروخت کئے جائیں۔
یہ عوام سے لوٹ کھسوٹ کرکے بنائے گئے ہیں۔ شاہانہ اخراجات کے لئے قرض حکمران لے رہے ہیں اور سود عوام ادا کریں، یہ کہاں کا انصاف ہے؟مزید قرضے لینے سے بہتر ہے کہ دیوالیہ پن(bankruptcy )کا اعلان کر دیا جائے۔ کم از کم بین الاقوامی قوانین کے مطابق قرض خواہوں سے مہلت تو مل جائے گی۔ پچھلے قرضے کہاں خرچ ہوئے اس کا فرانزک آڈٹ کیا جائے۔ عوام کو مرے پر سو درے نہ مارے جائیں۔ قرض لینے کی بجائے ایسی پالیسی بنائی جائے کہ بیرون اور اندرون ملک سے سرمایہ کار انڈسٹری پر سرمایہ کاری کریں۔ یہ اسی وقت ممکن ہے جب حکومت قانون سازی کے ذریعے جوئے اور سٹے کی حوصلہ شکنی کرے۔ جب تک اسٹاک ایکسچینج اور کنسٹرکشن انڈسٹری مین سٹہ چلتا رہے گا ملک مین نہ صنعتی ترقی آسکتی ہے اور نہ روزگار کے مواقع پیدا ہو سکتے ہیں۔ اس قسم کا سٹہ غریبوں کو غریب تر اور امیروں کو امیر تر کر تا ہے۔پاسبان پریس انفارمیشن سیل سے جاری کردہ بیان میں پی ڈی پی کے چیئرمین الطاف شکور نے سرکاری اثاثے گروی رکھ کر سکوک بانڈز جاری کرنے کے فیصلہ پر رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے مزید کہا کہ ساٹھ اور ستر کی دہائیوں میں ہم قرض اس لئے لیتے تھے کہ صنعتیں لگائیں اور آج ہم شاہانہ اخراجات پورے کرنے کے لئے قرض لیتے ہیں۔ جو شاہانہ اخراجات سرکاری خرچے پر کرتے ہیں ان کے اثاثے گروی رکھیں جائیں بلکہ زیادہ مناسب ہے کہ بیچ دئیے جائیں تاکہ قرض لینے کی ضرورت ہی نہ پڑے۔ قرض کی پیتے تھے مے لیکن سمجھتے تھے کہ ہاں ،رنگ لاوے گی ہماری فاقہ مستی ایک دن۔سکوک بانڈ شکوک و شبہات کا اظہار کر رہا ہے۔ مطلب صاف ہے کہ قرض دینے والوں نے مزید قرض دینے سے انکار کر دیا ہے اس بنیاد پر دیوالیہ کا اعلان کر دیا جائے۔ کوئی قیامت نہیں ٹوٹ پڑے گی اور ویسے بھی ابھی کون سی بہار کی ٹھنڈی ہوائیں چل رہی ہیں یا راوی چین ہی چین لکھ رہا ہے۔ جب حکومت نے بجٹ خسارہ ساڑھے پانچ فیصد اور افراط زر کی شرح آٹھ فیض رکھنے ہا بجٹ میں اعلان کیا تھا اسی وقت اندازہ ہوگیا تھا کہ مہنگائی بھی بڑھے گی، افراط زر بھی ڈبل ڈجٹ جائے گا اور منی بجٹ بھی آئے گا۔ جب تک ملک میں ویلیو ایڈیشن(value addition )نہیں ہوگی اصلی دولت نہیں پیدا ہو سکتی۔ صرف پیپر کرنسی میں اضافہ ہوتا ہے جو افراط زر کی اصل ہے۔ اس سے غریبوں کا سرمایہ امیروں کو منتقل ہوتا ہے اور دو طبقاتی نظام پروان چڑھتا ہے۔