ملتان (این این آئی) آمدن سے زائد اثاثے اور بنک ٹرانزیکشن پرجاوید ہاشمی کا خاندان ایف بی آر کے ریڈار پر آ گیا، ایف بی آر نے مکمل قانونی کارروائی کرنے کے بعد جاوید ہاشمی کی بیٹی آمنہ ہاشمی کے اکاؤنٹ سے 52 لاکھ سے زائد رقم نکلوا لی، آمنہ ہاشمی کے مطابق انکے اکاونٹ میں سے عدالتی حکم امتناعی کے باوجود پیسے
نکلوائے گئے انہوں نے عدالت عالیہ میں توہین عدالت کی درخواست بھی دے رکھی تھی،چیف کمشنر ایف بی آر عابد رضا بودلہ کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ آمنہ ہاشمی کے بنک ٹرانزیکشن کروڑوں روپے میں تھی، آمنہ ہاشمی کے انکم ٹیکس گوشواروں اور بنک اکاونٹ میں واضح فرق تھا،کئی مرتبہ نوٹس بھی جاری کئے گئے لیکن انہوں نے کوئی جواب نہ دیا کئی ماہ سے تحقیقات کا عمل جاری تھا آمنہ ہاشمی کی جانب سے کوئی جواب نہ آنے پر کارروائی کی گئی۔ دوسری جانب پاکستان مسلم لیگ (ن) کی ترجمان مریم اورنگزیب نے کورونا ریلیف پیکج سے متعلق آڈیٹر جنرل کی رپورٹ منظر عام پر لانے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ 1200 ارب کی خطیر رقم پر آڈٹ رپورٹ پبلک ہونے سے روکی جا رہی ہے،پہلے دوائیوں کے500 ارب کھا گئے اب کرونا کا ریکیف پیکج کھا گئے، کیا لوگ ہیں؟۔ اپنے بیان میں انہوں نے کہاکہ کرونا ریلیف پیکج کے خرچ میں سنگین بے ضابطگیوں کی نشاندہی خود آڈیٹر جنرل نے کی ہے،1200 ارب کے کورونا ریلیف پیکج کے علاوہ آئی ایم ایف سے 1.386 ارب ڈالر کورونا کے لئے آئے۔ انہوں نے کہاکہ ورلڈ بینک کے 153 ملین، ایشیائی بینک کے 300 ملین ڈالرزاور یورپی یونین کے 150ملین یوروزکا حساب ابھی رہتا ہے،یہ پیسہ عالمی اداروں نے کورونا وبا کے مقابلے اور عوام کی
صحت بچانے کیلئے پاکستانی حکومت کو دیا تھا۔ انہوں نے کہاکہ آئی ایم ایف فسکل مانیٹر میں بھی اس پیسے کے استعمال پر سوال اٹھایاگیا ہے،معاشی ماہرین 15 کھرب کی رقم کا سوال اٹھا کر حکومت سے رسیدوں کا مطالبہ کررہے ہیں؟۔ انہوں نے کہاکہ کورونا ریلیف کے لئے 1200 ارب روپے کا معاملہ ایک اور رنگ روڈ سکینڈل دکھائی دیتا ہے،آڈیٹر جنرل پاکستان کی رپورٹ سامنے لائی جائے، قوم کو سچائی کا پتہ چلنا چاہیے۔ انہوں نے
کہاکہ حکومت سے رسیدیں مانگنے پر آڈیٹر جنرل کی رپورٹ چھپائی جارہی ہے،اتنی بڑی مقدار میں رقم موجود ہونے کے باوجود حکومت نے ویکسین کی بروقت بکنگ میں کیوں مجرمانہ غفلت برتی؟۔ انہوں نے کہاکہ بروقت ویکسین منگوالی جاتی تو ہزاروں پاکستانیوں کی زندگیاں بچائی جاسکتی تھیں،کورونا ریلیف فنڈ کے اربوں روپے کے ساتھ بھی وہی ہوا جو آٹا چینی دوائی ایل این جی، اور رنگ روڈ منصوبے میں ہوچکا ہے۔