اسلام آباد (این این آئی)پاکستان میں انتخابات کیلئے بھی ٹیکنالوجی کا استعمال،پاکستان نے الیکٹرانک ووٹنگ مشین تیار کر لی۔ وفاقی وزیر سائنس اینڈ ٹیکنالوجی فواد چوہدری نے ووٹنگ مشین سے متعلق بریفنگ دی اور کہاکہ مشین نیشنل انسٹیٹیوٹ آف الیکٹرانک نے تیار کی ہے، مشین کے دو حصے ہیں ایک حصے پر انتخابی نشانات ہیں، دوسرا
حصہ پریزائڈنگ افسر کے پاس ہوگا، جب ووٹر اندر جاتا ہے ووٹ ڈالنے تو پریزائڈنگ افسر ووٹ کے لیے الاؤ کر دیتا ہے۔واضح رہے کہ سینیٹ انتخاب 2018 کی لیک ویڈیو کی تحقیقات کے لیے تشکیل دی گئی 3 رکنی وزرائی کمیٹی ابھی تک کوئی پیش رفت نہیں دکھا سکی۔میڈیا رپورٹ کے مطابق کمیٹی کا دوسرا اجلاس بدھ کو ہو گا اس سے قبل 12 فروری کو اس کا پہلا اجلاس ہوا تھا۔واضح رہے کہ وزیراعظم عمران خان نے وفاقی وزیر سائنس و ٹیکنالوجی فواد چوہدری، وفاقی وزیر انسانی حقوق شیریں مزاری اور وزیراعظم کے مشیر برائے احتساب شہزاد اکبر پر مشتمل ایک کمیٹی تشکیل دی تھی۔خیال رہے کہ عمران خان نے 2 سال قبل پی ٹی آئی سے 20 ایم پی ایز کو نکال دیا تھا اور اس مہینے ویڈیو کے میڈیا میں لیک ہونے کے بعد ایک اور قانون ساز کو بھی ہٹا دیا تھا۔پاکستان تحریک انصاف کے کچھ سینئر رہنماؤں کا دعویٰ ہے کہ ویڈیو میں جو گھر دیکھا گیا وہ اسلام آباد میں ہے اور یہ خیبرپختونخوا اسمبلی کے اسپیکر کی رہائشگاہ نہیں۔انہوں نے کہاکہ2018 میں خیبرپختونخوا اسمبلی کے 21 پی ٹی آئی اراکین کے ووٹوں کو خریدنے میں ’ارب پتی‘ ملوث تھے اور وہ 3 مارچ کو ہونے والے سینیٹ انتخابات کے لیے اپنے مکروہ دھندے میں دوبارہ متحرک ہوگئے ہیں اس حوالے سے جب فواد چوہدری سے رابطہ کیا گیا تو
انہوں نے کہا کہ کمیٹی بدھ کو ملاقات کرے گی اور دیکھیں کیا ہوتا ہے۔انہوں نے اتفاق کیا کہ پی ٹی آئی ایم پی ایز کی وفاداریاں کس نے خریدی تھیں اس سے متعلق کمیٹی کے سامنے ابھی کچھ نہیں آیا۔جب ان سے پوچھا گیا کہ آیا وہ وفاقی دارالحکومت میں اس گھر کے مقام کے بارے میں جانتے ہیں جہاں ڈیل ہوئی تھی جیسا کہ اسپیکر قومی
اسمبلی اسد قیصر سمیت مختلف پی ٹی آئی رہنماؤں کا دعویٰ ہے تو اس پر وفاقی وزیر نے لاعلمی کا اظہار کیا۔فواد چوہدری نے کہا کہ کمیٹی اپنے کام کے دائرہ کار، اس کی ٹرم آف ریفرنس اور اسکینڈل میں ملوث افراد کی مجرمانہ ذمہ داری کا تعین کرے گی۔انہوں نے کہا کہ کمیٹی ووٹوں کی خرید و فروخت کرنے والوں کی شناخت کا پتا لگانے
کے لیے وفاقی تحقیقاتی ایجنسی اور پولیس کی مدد حاصل کرسکتی ہے۔وفاقی وزیر نے اپوزیشن کے اس دعوے کو مسترد کردیا کہ وزیر دفاع پرویز خٹک اور اسپیکر اسد قیصر اس اسکینڈل میں ملوث تھے، ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ ’ہمیں اپوزیشن کے جھوٹے دعوؤں کو اہمیت نہیں دینی چاہیے۔ان کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی پہلے ہی مبینہ طور پر رقم
لے کر اپنی وفاداریاں فروخت کرنے والے 21 ایم پی ایز کو جماعت سے نکال چکی ہے اور اب کمیٹی ان چہروں کو بے نقاب کرے گی جنہوں نے انہیں خریدا تھا۔کمیٹی کو ٹاسک دیا گیا کہ وہ اسکینڈل سے متعلق حقائق کا پتا لگائے اور ایک ماہ میں اپنی سفارشات وزیراعظم کو جمع کروائے۔دوسری جانب شہزاد اکبر پہلے ہی یہ کہہ چکے
ہیں کہ بظاہر پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری اس اسکینڈل کے پیچھے تھے تاہم پیپلزپارٹی کے رہنما فرحت اللہ بابر نے اس الزام کو مسترد کردیا اور کہا کہ دو ایم پی ایز کا دعویٰ تھا کہ پرویز خٹک اور اسد قیصر نے اپنی ہی جماعت کے قانون سازوں کی وفاداریاں خریدیں تاکہ وہ دیگر جماعتوں کے حق میں ووٹ نہیں ڈالیں۔ان کا کہنا تھا کہ ماضی میں یہ دیکھا گیا ہے کہ کچھ ایم پی ایز کو خریدا گیا تھا تاکہ وہ اپنی جماعت کے ساتھ وفادار رہیں۔