میلبرن(نیوز ڈیسک) ماہرین نے تجربہ گاہ میں پہلی بار ایک خاص قسم کی ا?واز کی لہریں پیدا کی ہیں جس کے لیے گزشتہ 50 برس سے کوششیں ہورہی تھیں۔ ان لہروں کو انسانی جسم میں ویکسین داخل کرنے کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے۔آسٹریلیا کی آرایم آئی ٹی یونیورسٹی کی اس کوشش سے منہ کے ذریعے کھائی جانے والی ویکسین کے وقت میں بہت کمی کی جاسکتی ہے۔ اس کے علاوہ اسٹیم سیل (خلیاتِ ساق) کے علاج کی راہ بھی ہموارہوگی۔ اس میں آواز کی دو طرح کی موجوں کو ملایا گیا جو اسی طرح آگے بڑھتی ہے جس طرح سمندری لہریں آگے بڑھتی ہیں اوراسے طبی آلات میں استعمال کرنا ممکن ہوگا۔ماہرین کی ٹیم نے آواز کی لہروں کو ایک نئے نیبولائزر میں استعمال کرکے دوا کو پھیپھڑوں کے اندر پہنچانے کا بھی تجربہ کیا جس سے دوا پہنچانے کا وقت 30 منٹ سے کم ہوکر 30 سیکنڈ تک ہوگیا۔ یونیورسٹی کی مائیکرو اور نینو ٹیکنالوجی لیبارٹری کے سائنسدان امجد رازق نے بتایا کہ اس ٹیکنالوجی کے ذریعے خاص اسٹیم سیل کو پھیپھڑے کے متاثرہ حصوں تک پہنچا کر ان کی مرمت کی جاسکتی ہے اور یہ اسٹیم سیل تھراپی کا ایک انقلاب ثابت ہوگا۔امجد رزاق کے مطابق بجلی تھرتھراہٹ پیدا کرکے مائع دوا کو بخارات میں بدلتی ہے۔ عموماً بچوں کو آکسیجن ماسک پہنا کر نیبولائزر سے دوا دی جاتی ہے جس میں دوا کو بخارات میں بدلا جاتا ہے جس کے ذریعے ایک منٹ میں صرف صفر اعشاریہ 2 ملی لیٹردوا پھیپھڑوں میں جاتی ہے لیکن ’ہائیڈرا‘ نامی اس تکنیک کے ذریعے ایک منٹ میں 5 ملی لیٹر دوا پھیپھڑوں میں داخل کی جاسکتی ہے۔اگلے مرحلے میں اس کے ذریعے چھوٹے بچوں، دمے اور ذیابیطس کے مریضوں کو کسی تکلیف دہ انجکشن کے بغیر دوا دینا ممکن ہوسکے گا۔