اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)سینئر صحافی اور کالم نگار اعزاز سید روزنامہ جنگ میں اپنے کالم”نیب کی چغلیاں” میں لکھتے ہیں کہ 26جولائی 2020کی بات ہے۔ نیب نے 24گھنٹے بریکنگ نیوز دیتے ٹی وی چینلز کے کیمروں سے بچ بچا کر کراچی میں وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کے دفتر پر چھاپہ مارا اور وزارتِ خزانہ سندھ کے دفتر میں موجود
اہم دستاویزات حاصل کیں۔ اس کارروائی کے دوران وزیراعلیٰ سندھ کو واقعے کا پتہ چلا تو انہوں نے ٹیلی فون گھمانا شروع کیے۔ وہ چیئرمین نیب جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال سے رابطے کی کوشش کررہے تھے مگر رابطہ ہو نہیں پارہا تھا۔ وقت گزر گیا۔ نیب کی کارروائی مکمل ہوئی، ایک صوبے کی منتخب حکومت کے سربراہ کی سرِ عام تذلیل کی گئی، معاملہ میڈیا کی نظروں سے البتہ اوجھل رہا۔ دراصل وزیراعلیٰ سندھ نیب کی طرف سے بنائے گئے جعلی اکائونٹس کیس کے ایک ذیلی کیس روشن پاکستان میں نامزد ہیں۔ مراد علی شاہ کو نیب کی طرف سے اسلام آباد طلب کرکے پوچھ گچھ تو ہوتی رہی ہے مگر ان کے دفتر میں چھاپہ مارنا صرف ایک وزیراعلی ہی نہیں پورے سندھ کی تذلیل تھی جس کا جواب عوامی طور پر وزیراعلی سندھ نے دینا مناسب سمجھا نہ جمہوری روایات کی حامل پاکستان پیپلزپارٹی نے اس کی ضرورت محسوس کی۔تاہم وزیراعلیٰ نے اس واقعے کے دو روز بعد چیئرمین نیب کو 28 جولائی 2020 کو ایک خط لکھا۔
وزیراعلیٰ نے اس خط میں نیب کے چھاپے کے بارے میں موثر احتجاج کرنے کے بجائے چیئرمین نیب سے درخواست کی کہ ماضی میں بھی نیب کو کچھ دستاویزات کی ضرورت تھی جو فراہم کردی گئیں۔ اگر کسی بھی دستاویز کی ضرورت ہو تو بتایا جائے اس طرح شرمندہ نہ
کیا جائے۔ وزیراعلیٰ کے خط میں نیب کے ساتھ اپنے تعاون کا تفصیلی ذکر بھی موجود تھا۔ میری اطلاعات کے مطابق یہ چھاپہ وزیراعلیٰ سندھ کے خلاف روشن پاکستان کی تحقیقات کے سلسلے میں مارا گیا جس کی منظوری نیب راولپنڈی کے عرفان نعیم منگی نے دی تھی۔ اس واقعے سے
یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ مراد علی شاہ سندھ کے وزیراعلیٰ کی حیثیت سے بظاہر انتظامی سربراہ ہیں مگر عملی طور پر وہ طاقتوروں کے ہاتھوں کسی کھلونے سے کم نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب مریم نواز اور کیپٹن ریٹائرڈ صفدر کے خلاف پولیس چیف کو اغوا کرکے کارروائی کی گئی تو
وزیراعلیٰ عملی طور پر بت بنے رہے۔عام طور پر نیب سیاسی حکومتوں کو شرمندہ کرنے کے لیے ایسی خبریں لیک کردیتا ہے مگر وزیراعلیٰ سندھ کے ساتھ پیش آنے والے واقعے میں ایسا کچھ نہ ہوا۔ نیب ایسا نہ بھی کرے تو سیاسی جماعتیں نیب کی شتربے مہار طاقت کا بھانڈا
ٹی وی چینلز اور اخبارات میں پھوڑتی ہیں۔ اب اتنے عرصے بعد اس سارے واقعے کا جائزہ لیتا ہوں تو سمجھ آتی ہے کہ آج کل نیب وزیراعلیٰ سندھ اور پیپلزپارٹی کے اکثر رہنمائوں پر اتنا مہربان کیوں ہوچکا ہے۔ یہ سب کچھ لو اور کچھ دو کے اصول پر ہوتا ہے۔ آپ اپنی عزت کسی کمزوری کی بنا پر ہی گنواتے ہیں جواب میں جو کہا جائے وہ مان لیا جاتا ہے۔ حیران کن بات تو یہ ہے کہ پیپلز پارٹی ہو یا ن لیگ، کسی کی قیادت کی طرف سے آج تک چیئرمین نیب کے خلاف کوئی ریفرنس عدالت میں داخل کیا گیا نہ کسی فورم پر کوئی ٹھوس آواز بلند کی گئی۔