کراچی(این این آئی) دکھی انسانیت کے لیے اپنی زندگی وقف کرنے والے مسیحا عبدالستار ایدھی کو جہان فانی سے رخصت ہوئے 4 برس بیت گئے ہیں،کئی دہائیوں تک انسانیت کی بلا تفریق خدمت کرنیوالے ایدھی آج بھی ہر پاکستانی کے دل میں زندہ ہیں۔عبدالستار ایدھی 28 فروری 1928 میں بھارت کی ریاست گجرات کے شہر بانٹوا میں پیدا ہوئے۔ عبدالستارایدھی تقسیم ہند کے
بعد1947 میں اپنے خاندان کے ہمراہ پاکستان آئے اور کراچی میں سکونت اختیار کی۔ کم عمری میں ہی انسانی خدمت کو اپنی زندگی کا نصب العین بنا لیااور 65 برس دکھی انسانیت کی خدمت میں گزار دیئے۔ شفقت کا ہاتھ سب کے سر پر رکھنے والے، محبت بانٹنے والے اور دوسروں کے غم میں شریک ہونے والے ایدھی نے 1951 میں ذاتی جمع پونجی سے ایک چھوٹی سی دکان خریدی اور صرف 5ہزار روپے سے ایدھی فائونڈیشن کی بنیاد رکھی ۔عبدالستار ایدھی نے کلینک، زچہ خانے، پاگل خانے، معذوروں کے لیے گھر، بلڈ بنک، یتیم خانے، لاوارث بچوں کو گود لینے کے مراکز، پناہ گاہیں اور اسکول بھی قائم کیے وہ قدرتی آفات اور حادثات میں متاثرین کی فوری مدد کے لیے پہنچتے تھے۔ عبدالستار ایدھی نے دنیا کی سب سے بڑی رضاکارانہ ایمبولینس سروس قائم کی۔ انہوں نے یتیموں کی پرورش اور لاوارثوں کی کفالت کی ۔دنیا میں سب سے بڑی رضا کارانہ ایمبولینس آرگنائزیشن کے قیام پر ایدھی کا نام گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں شامل کیا گیا ۔ بین الاقوامی سطح پر 1986 میں انہیں فلپائن نے رومن میگسے ایوارڈ سے نوازا گیا ، 1988 میں آرمینیا میں زلزلہ زدگان کی مددکے عوض امن انعام برائے یو ایس ایس آر دیا گیا۔1993 میں روٹری انٹرنیشنل فائونڈیشن کی جانب سے پاول ہیرس فیلوشپ دی گئی۔عبدالستار ایدھی گردوں کے عارضے میں مبتلا تھے اوروہ علالت کے باعث 8 جولائی 2016 کو خالق حقیقی سے جاملے، ایدھی کو ان کی خدمات کے اعتراف میں مکمل سرکاری اعزاز کے ساتھ سپرد خاک کیا گیا۔ حکومت پاکستان نے انہیں بعد از مرگ نشانِ امتیاز سے بھی نوازا۔عظیم شخصیت کے اعزاز میں اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے 50 روپے مالیت کا سکہ بھی جاری کیا۔ سخی اور دکھی انسانیت کے مسیحا کو مرتے وقت بھی فکر تھی کہ اللہ کے بندوں کے لئے جاتے وقت بھی کچھ کر جاوں اور عظیم خادم آخر وقت اپنی آنکھیں ایک ضرورت مند نابینا کو عطیہ کر کے چلے گئے۔ آپ کی خدمت سے آج بھی پاکستان مستفید ہورہا ہے