اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک)سینئر کالم نگار جاوید چوہدری اپنے کالم ’’ یہ صرف قبر نہیں‘‘ میں لکھتے ہیں کہ ۔۔۔۔مسقط کے اندر الموج (ویوز) نام کا ایک وسیع رہائشی کمپاؤنڈ ہے‘ یہ سمندر کے کنارے ہے اور یہ ہر لحاظ سے دوبئی لگتا ہے‘ یہ انٹرنیشنل کمیونٹی کا کمپاؤنڈ ہے‘ آپ اس میں داخل ہوں آپ کو محسوس ہوگا آپ کسی عرب ملک کی بجائے یورپ میں پھر رہے ہیں‘ اسلامی دنیا کے زیادہ تر
معزول حکمرانوں کے خاندان الموج میں رہتے ہیں‘ کرنل قذافی کی فیملی بھی یہاں رہتی ہے اور شام‘ یمن‘ عراق اور لبنان کے معزول حکمرانوں اور وزراءکے بچے بھی۔سلطان قابوس حالات کے شکار حکمرانوں کے برے وقت کے ساتھی ثابت ہوتے تھے‘ یہ ہر لٹے پٹے حکمران اور اس کے خاندان کے لیے اپنے دروازے کھول دیتے تھے‘ شاید یہی وجہ ہے ان کے جنازے میں وہ تمام لوگ موجود تھے جنہیں پوری دنیا مل کر ایک جگہ نہیں بٹھا سکی‘ مصر کے مورسی اور السیسی دونوں گروپ ایک دوسرے سے لڑ رہے ہیں‘ یمن میں حوثیوں اور حکومت کے درمیان لڑائی چل رہی ہے‘ شام میں تین مختلف اسلامی طاقتیں ایک دوسرے کے سر اتار رہی ہیں اور ایران اور سعودی عرب کا تنازع بھی آخری سٹیج پر پہنچ چکا ہے مگر آپ سلطان قابوس کا کمال دیکھیے‘ ان سب طاقتوں کے سربراہ اور نمائندے سلطان کے جنازے میں موجود تھے۔یہ سب مل کر ان کے درجات کی بلندی کی دعا کر رہے تھے‘آپ یہ دیکھیے اومان واحد عرب ملک ہے جس میں کوئی ولی عہد نہیں تھا‘ سلطان کے انتقال کے بعد ان کی وصیت کھولی گئی‘ سلطان نے ہیثم بن طارق السعید کو بادشاہ نامزدکیا تھا اور پورے خاندان اور ملک میں سے کسی نے چوں تک نہ کی‘ ہر شخص نے سلطان کے فیصلے پر آمین کہہ دی‘ پوری دنیا کا خیال تھا سلطان قابوس کے بعد تخت اور تاج کے ایشو پر اومان بکھر جائے گا لیکن سلطان کے اخلاص اور محبت نے انتقال کے بعد بھی ملک کو جوڑے رکھا۔ملک میں کسی جگہ بغاوت ہوئی اور نہ شورش‘ کسی نے
مخالفانہ آواز تک نہیں نکالی اور سلطان بلا کے مستقل مزاج بھی تھے‘ یہ جو کام شروع کر دیتے تھے یہ اسے پایہ تکمیل تک پہنچا کر دم لیتے تھے‘ یہ ہو نہیں سکتا تھا سلطان قابوس نے کوئی کام شروع کیا ہو اور وہ کام مکمل نہ ہوا ہو چناں چہ میں سمجھتا ہوں سلطان قابوس کی قبر صرف قبر نہیں یہ اسلامی دنیا کے تمام حکمرانوں کے لیے روشن مثال ہے اور یہ مثال ثابت کرتی ہے انسان اگر دنیا میں کچھ کرنا چاہے
تو یہ پوری قوم کا مقدر بدل سکتا ہے اور اس کے جانے کے بعد اس مٹی کی چھوٹی سی ڈھیری دنیا کا سب سے بڑا مقبرہ بن سکتی ہے۔لوگ اس کی کچی قبر کی مٹی کو سرمہ بنا لیتے ہیں اور سلطان قابوس زندہ تھے تو یہ کمال تھے‘ یہ انتقال فرما گئے تو یہ کمال سے بھی بڑا کمال بن گئے‘ یہ ثابت کر گئے لوگوں کی خدمت کرنے والے حکمران مزاروں اور مقبروں کے محتاج نہیں ہوتے‘ ان کی کچی قبریں بھی تاج محل سے بڑی اور قیمتی ہوتی ہیں۔