اسلام آباد(نیوزڈیسک)چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار نے کہا ہے کہ اگر ڈیم فنڈ کی مہم چلی ہے تو اس میں میڈیا کا بہت بڑا کردار ہے ۔چیف جسٹس کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے پانچ رکنی خصوصی بینچ نے دیامر بھاشا اور مہمند ڈیم تعمیر عملدرآمد کیس کی سماعت کی۔گزشتہ سماعت پر عدالت نے میڈیا پر مہمند ڈیم کے ٹھیکے کے حوالے سے تنقید پر پیمرا سے جواب طلب کیا تھا۔اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ پیمرا نے 76 ٹاک شوز کا ریکارڈ پیش کیا ہے،
ڈیم فنڈ کی تشہیر کے لیے ٹی وی چینلز اشتہار چلا رہے ہیں، 13 ارب روپے کے مفت اشتہارات چلائے گئے جبکہ ہر چینل نے ڈیم فنڈ کے لیے کام کیا ہے۔جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ اگر مہمند ڈیم کے ٹھیکے پر تنقید ہو گی اور واپڈا کا موقف نہیں لیا جائے تو یہ ٹھیک نہیں، جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ جی این این چینل نے تنقید پر پورا پروگرام کیا ہے۔چیف جسٹس نے کہا کہ آج اگر ڈیم فنڈ کی مہم چلی ہے تو اس میں میڈیا کا بہت بڑا کردار ہے، میڈیا نے حب الوطنی کے جذبے کے تحت کام کیا ہے، اگر ٹھیکے پر تنقید ہوئی ہے تو یہ بہت تھوڑا سا حصہ ہے، جی این این نے زیادہ تنقید کی ہے جبکہ ہم کہہ دیتے ہیں کہ واپڈا کا موقف بھی لے لیں۔اس موقع پر جی این این کے بیورو چیف میاں شاہد روسٹرم پر پیش ہوئے اور کہا کہ پروگرام کی اینکر غریدہ فاروقی آرہی ہیں۔اٹارنی جنرل نے کہا کہ کچھ پروگرامز میں غلط حقائق بیان کیے جاتے ہیں جس پر چیئرمین پیمرا نے کہاکہ ہم چینلز کو ایڈوائس جاری کرتے ہیں۔چیف جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ ایڈوائس جاری کرنے سے کام نہیں بنے گا تادیبی کارروائی کرنا پڑیگی ٗ ڈیم ملک کے مفاد کی بات ہے لیکن مالک کو اتنی توفیق نہیں ہوئی کہ یہاں تشریف لاتے۔چیف جسٹس نے غریدہ فاروقی سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ کہتی ہیں پیپرا رولز کی خلاف ورزی ہوئی ہے۔جسٹس عمر عطا بندیال نے سوال کیا کہ پیپرا رولز کیا ہوتے ہیں، غریدہ فاروقی پیپرا کا مخفف نہ بتا سکیں۔اینکر نے کہا کہ ہم نے قطعاً ڈیم کے خلاف کوئی بات نہیں کی جبکہ میں نے خود ڈیم فنڈ کے لیے چندہ دیا ہے۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے اینکر سے کہا کہ اگر آپ ڈیم ٹھیکے کے خلاف بات کریں گی تو ڈیم کے خلاف بات ہوگی۔اس موقع پر چیف جسٹس نے چینل پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ جی این این کو لائسنس کس طرح مل گیا، اس طرح کے لوگوں کو لائسنس کیوں جاری کیے جاتے ہیں، چینل مالکان نے پہلے بھی عدالت سے معافی مانگی تھی۔غریدہ فاروقی نے کہا کہ ،سر میری پوری ریسرچ کی ٹیم ہے جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ گندی مٹھائیوں کے لیے کوئی ٹیم نہیں بنائی، مٹھائیوں میں جراثیم پکڑے جائیں تو رونا دھونا شروع کر دیتے ہیں، آپ کیا چاہتے ہیں کہ ڈیم نہ بنے۔
ان کا لائسنس منسوخ کریں،مہمنڈ ڈیم پر پروپیگنڈا کرنے پر سپریم کورٹ کے جج صاحبان نے غریدہ فاروقی کو آڑے ہاتھوں لے لیا۔۔ غریدہ فاروقی PPRA کا مطلب بھی نہ بتاسکیں جس پر عدالت میں قہقہے لگ گئے،غریدہ فاروقی نے کہا کہ سر آپ ملک کے مسیحا ہیں جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ اگر ہم مسیحا ہیں تو پانی کے مسئلے پر ہمارا ساتھ دیں۔جسٹس اعجاز الاحسن نے اینکر سے کہا کہ آپ اپنی ریسرچ ٹیم کو بلائیں، سنگل بڈ کے ذریعے مہمند ڈیم کا ٹھیکہ نہیں دیا گیا پورا طریقہ کار اپنایا گیا ہے، لیکن آپ نے کہا کہ سنگل بڈ پر ٹھیکہ دیا گیا۔عدالت نے معافی دے کر معاملہ ختم کر دیا اور چیف جسٹس نے کہا کہ اپنے مالکان کو بھی کہیے گا کہ آئندہ محتاط رہیں۔
چیئرمین واپڈا نے عدالت کو بتایا کہ وزارت توانائی نے 164 ارب روپے واپڈا کو دینے ہیں جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ مالی معاملات پر حکومت سے جواب لے کر دوں گا۔چیف جسٹس نے چیئرمین واپڈا سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ ہر مہینے پیش رفت رپورٹس دیں جبکہ گورنر اسٹیٹ بینک بیرون ملک سے آئے فارن ایکسچینج کے بہترین ریٹس دیں۔انہوں نے کہا کہ فنڈز، سپریم کورٹ عملدرآمد بینچ کی مرضی کے بغیر خرچ نہیں کیے جا سکیں گے۔جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ ٹیلی کام سیکٹر اور پانی پر ٹیکسز کے پیسے ڈیم تعمیر پر خرچ ہونے چاہئیں ۔چیف جسٹس نے کہا کہ اس پر قانون سازی کی ضرورت نہیں، حکومت پروپوزل بنا کر دے کہ واٹر ٹیکس کے پیسے کس طرح ڈیم فنڈ کے لیے مختص ہو سکتے ہیں، چیئرمین ایف بی آر بتائیں ڈیم فنڈ کی سرمایہ کاری کس جگہ لی جا سکتی ہے، وکیل مخدوم علی خان اور ڈاکٹر پرویز حسن پروپوزل کی تیاری میں مدد فراہم کریں گے جبکہ اس معاملے میں عملدرآمد بینچ بنائیں گے۔کیس کی سماعت فروری کے پہلے ہفتے تک ملتوی کردی گئی۔