اسلام آباد(آن لائن )العزیزیہ اسٹیل ملز ریفرنس میں نواز شریف کو مزید 78 سوالات فراہم کر دیے گئے، نواز شریف کْل 140 سوالات کے جوابات پیر کو قلمبند کروائیں گے، فلیگ شپ ریفرنس میں نیب پراسیکیوٹر واثق ملک کے حتمی دلائل دوسرے روز بھی جاری رہے، بولے نوازشریف نے مریم نواز کو 800ملین روپے منتقل کئے ،کہا کہ ہم بھی نہیں کہتے کہ بیٹی کو پیسے دینا جرم ہے ، ہمارا کیس یہ ہے کہ نوازشریف ایچ ایم ای کے بینفشری ہیں،
احتساب عدالت نمبر2کے جج محمد ارشد ملک کی عدالت میں العزیزیہ سٹیل مل اور فلیگ شپ ریفرنس کی سماعت کے دوران میاں محمد نوازشریف عدالت میں پیش ہوئے، سماعت شروع ہونے سے قبل العزیزیہ ریفرنس میں نیب کے حتمی دلائل کے دوران اٹھائے گئے سوالات سے متعلق اپنے وکلاء سے مشاورت کی اور وکلاء کو 3 صفحات پر مشتمل پوائنٹس دئیے، سماعت شروع ہونے پر نوازشریف روسٹرم پرآئے اور کہاکہ وکیل کیاکہناچاہتے ہیں میں سننا چاہتاہوں جس پر نیب پراسیکیوٹرواثق ملک کاکہناتھاکہ میں قطری خط کے حوالہ سے بات کروں گا،قطری نے جے آئی ٹی کو لکھا کہ میں پاکستان کے قانون کے مطابق شامل تفتیش نہیں ہونگا،قطری نے کہا کہ تفتیش کے لئے پاکستان کے قانون کے مطابق شامل نہیں ہونگا، اور نہ کسی عدالت میں پیش ہونگا،1980 کے معاہدے پر واجد ضیاء کا بیان پڑھوں گا اس موقع پر عدالت نے پوچھاکہ ریکارڈ میں طارق شفیع نے 6 ملین نہیں لکھا؟جس پر نیب پراسیکیوٹرنے جواب دیاکہ نہیں ریکارڈ میں 7 ملین لکھا ہوا ہے،قطری شہزادے نے پاکستان آنے اور بیان ریکارڈ کروانے سے انکار کر دیا تھاجس پر نوازشریف نے کہاکہ اصل میں بات اور ہے اور کسی اور انداز میں پیش کی جا رہی ہے اس موقع پر نیب پراسیکیوٹرنے کہاکہ اب بھی میرے حتمی دلائل جاری ہیں،جب آپ کی باری آئے گی تو یہ کر لیں۔اس موقع پر عدالت نے نواز شریف کو وضاحت کرنے سے روکتے ہوئے کہاکہ خواجہ حارث عدالت کو بتا دیں گے،
نیب پراسیکیوٹرنے دلائل جاری رکھتے ہوئے کہاکہ 2001 میں حسین نواز نے اپنے دادا کے تعاون سے کاروبار شروع کیا ، 2006 میں العزیزیہ سٹیل مل کو فروخت بھی کر دیا گیا ، 2001 میں العزیزیہ سٹیل مل بنائی گئی تو ان کے پاکستان میں جاری کاروبار سے کوئی مددنہیں ملی،حسین نواز کے مطابق العزیزیہ کیلئے دوبئی سے مشینری لائی گئی،ہل میٹل اسٹیبلشمنٹ پہلی بار آلدار آڈٹ رپورٹ کے ذریعے سامنے آئی ، حسین نواز نے ایک آڈٹ رپورٹ سپریم کورٹ اور دوسری جے آئی ٹی میں پیش کی ،
وکیل اس موقع پر عدالت کاکہناتھاکہ وکیل صفائی نے اپنی جرح میں الدار رپورٹ کو تسلیم نہیں کیا،جس پر نیب پراسیکیوٹرنے جواب دیاکہ سپریم کورٹ میں سی پی 29 نوازشریف کیخلاف دائر کی گئی تھی ،اسی کیس میں ہی حسین نواز نے یہ دستاویزات جمع کرائیں،تمام شواہد کا آپس میں ربط ہے ،یہ خود کو علیحدہ نہیں کرسکتے ،نوازشریف کی طرف سے جے آئی ٹی رپورٹ کیخلاف درخواست میں الدار رپورٹ پر اعتراض نہیں کیا گیا، بے نامی دار کے کیس میں دیکھا جاتا ہے کہ اثاثوں کا اصل فائدہ کس کو جارہا ہے ،
پیش کیے گئے ریکارڈ سے ظاہر ہے کہ ہل میٹل کے منافع کے بڑا حصہ نوازشریف کو منتقل ہوا،وقفہ کے بعد نوازشریف دوبارہ روسٹرم پر آئے اور کہاکہ یہ معاملہ 1973 میں شروع ہوا ،یہ اسوقت کی بات ہے جب دبئی میں گلف اسٹیل مل لگائی گئی،اسکا تو کسی نیمنی ٹریل نہیں پوچھا،اس اثاثے کے بعد دوسرے اثاثے بیرون ملک بنائے گئے،آپ آگے بڑھنے سے پہلے ریفرنس کا جائزہ لیں کہ اس ریفرنس کا سر پیر بھی ہے کہ نہیں،جس پر عدالت کاکہناتھاکہ ابھی آپ کے دلائل بعد میں سنیں گے،منی ٹریل والی بات آپ سے بھی پوچھیں گے،
اس پر نوازشریف نے کہاکہ بے شمار والدین کے بیٹے دنیا میں کام کرتے ہیں ،ہر بیٹا اپنے باپ کو پیسے بھیجتا ہے،باپ کو پیسے دینا بیٹے کے لیے اعزاز ہے،کیا پیسے بھیجنے سے ثابت ہوتا ہے کہ میں مالک ہوں، یہ میرے مالک ہونے کا ثبوت تو دیں،ان کے پاس ثبوت ہوتا تو دیتے،اس موقع پر نیب پراسیکیوٹرواثق ملک کاکہناتھاکہ ظاہری بات ہے ان کا اثاثہ تھا وہ انکی پرائمری دستاویز تھی انہوں نے ہی دینا تھی،اثاثے کی ملکیت ان کے پاس ہے چلا یہ رہے ہیں اور فائدے بھی یہ اٹھارہے ہیں اس موقع پر عدالت نے پوچھاکہ کیا میاں شریف کے اکاؤنٹس سے العزیزیہ کے قیام کیلئے کوئی چیز ریکارْ پر ہے ؟
جس پر نیب پراسیکیوٹر نے بتایاکہ ایسی کوئی بھی چیز ریکارڈ پر نہیں ہے عدالت کی طرف سے پوچھاگیاکہ سارے دلائل آپنے دینے ہیں یا اکرم قریشی بھی دیں گے؟جس پر واثق ملک نے جواب دیاکہ شاید قریشی صاحب بھی کچھ گزارشات آپکے سامنے رکھیں،عدالت نے پوچھاکہ کیا ہل میٹل سے بھی رقوم براہ راست نواز شریف کو آتی رہیں ؟جس پرنیب پراسیکیوٹرنے جواب دیاکہ جی بلکل ہل میٹل سے بھی نواز شریف کو رقوم آئیں،عدالت کی طرف سے ساری تفصیل تحریری بھیجنے سے متعلق پوچھے جانے پر بتایاگیاکہ میں آپکو تحریری طور پر فراہم کر دوں گا،نیب پراسیکیوٹرنے کہا کہ حسن اور حسین نواز سپریم کورٹ کا فیصلہ آنے کے بعد فرار ہوئے،
ہمارا کیس یہ ہے کہ یہ اثاثے بنے کیسے ؟اس پر عدالت نے استفسارکیاکہ العزیزیہ سٹیل کیسے لگی یہ تو ملزمان نے بتانا تھا نا؟آپ تو باہر سے نواز شریف کو آنے والے پیسے بتا رہے ہیں،یہاں سے باہر پیسہ گیا ہے یہ تو ہم بھی باہر والوں سے کہہ رہے ہوتے ہیں پیسہ بھیجو پیسہ، جس پر نوازشریف نے کہاکہ یہ تو اعزاز کی بات ہے کہ باہر سے پیسہ بھیجا جا رہا ہے،اس پر نیب پراسیکیوٹرکاکہناتھاکہ اس بات سے تو یہ ثابت ہوتا ہے کہ یہ اثاثہ ان کا ہے ،حسن اور حسین نواز جان بوجھ کر حقائق چھپانے کیلئے مفرور ہوئے،اس موقع پر عدالت نے پوچھاکہ آپ یہ کہنے ہیں کہ بیٹوں کو والد کو ریسکیو کرنے کیلئے آنا چائیے تھا وہ جان بوچھ کر فراف ہوئے،
جس پر واثق ملک نے کہاکہ حسن اور حسین نواز کی دستاویزات کو اب نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ،جس پر عدالت نے کہاکہ آپ لوگ صرف 1980 والے 12ملین درہم پر ہی انحصار کر رہے ہیں،ان 12 ملین ڈالر سے 17 لاکھ ڈالر بھی نکلے 8 ہزار ڈالر بھی نکلے اور العزیزیہ بھی نکلی،اس موقع پر نوازشریف نے کہاکہ فلیگ شپ میں اپ کے سوالنامے کی تیاری کرنی ہے جمعہ کے بعد تک وقفہ کیا جائے،جس۔پر عدالت نے کہاکہ وقفہ کر لیں اتنی دیر میں میں بھی اب تک کی کاروائی لکھوا لوں گااتنی دیر میں پراسیکیوٹر صاحب آپ بھی اپنی زبان مزید تیز کر لیں،جس پر نیب پراسیکیوٹرنے کہاکہ اسلامی نقطۂ نظر پراسیکیوٹر عمران شفیق بھی کچھ دلائل دیں گے،
اس پر عدالت نے کہاکہ کوشش کریں العزیزیہ سے متعلق نیب شام تک اپنے دلائل مکمل کر لے،اس موقع پر عدالت نے استفسارکیاکہ حسین نواز کو خود کفیل ظاہر کیوں نہیں کیا گیا ؟حسین نواز دادا سے پیسے کیوں لیتا رہا ہے ؟جس پر نیب پراسیکیوٹرنے بتایاکہ حسین نواز شروع سے ہی زیر کفالت ہیں ،ان کے پاس اپنا کچھ نہیں تھا،جبکہ وکیل صفائی نے کہاکہ حال ہی میں ایک جوتے پالش کرنے والے بچے نے ٹاپ کیا،ایک خود کفیل بچہ کام کرکے بھی کامیاب ہو سکتا ہے،اس پر عدالت کاکہناتھاکہ انہی لوگوں کی وجہ سے تو یہ ہے کہ وہ جوتے پالش کرکے پڑھ رہا ہے اور یہاں دیکھ لیں،بطور وزیراعظم نوازشریف کا حق بنتا تھا کہ وہ بچوں سے پوچھتے کہ اتنی جائیداد کہاں سے آئی،ایک عام بندہ یہ سب کرے تو الگ بات ہے لیکن یہ تو ملک کے وزیراعظم تھے عدالت نے نوازشریف کے وکیل کو ہدایت کی کہ ساری بات ذہن نشین کرلیں ان کے جواب دینے ہیں آپ نے،
جس پر وکیل صفائی نے کہاکہ نوازشریف جدی پشتی امیر تھے ،پہلی دو میں سے ایک مرسیڈیز ان کے پاس تھی،جس پر عدالت کاکہناتھاکہ ویسے کمال ہے کہ 2001 کے گوشواروں میں نوازشریف نے ایک گاڑی بھی ظاہر نہیں کی،عدالت کی طرف سے اسماء نواز سے متعلق استفسارپر نیب پراسیکیوٹرنے بتایاکہ اسما نواز نوازشریف کی بیٹی اور اسحاق ڈار صاحب کی بہو ہے،اس پر عدالت نے پوچھاکہ میں سمجھ رہا تھا کہ کوئی رشتہ دار ہے،اس کے نام پر کچھ نہیں؟جس پر نیب پراسیکیوٹرنے بتایاکہ اسما علی ڈار کے نام پر کچھ نہیں سامنے آیا ،نوازشریف نے ایچ ایم ای سے آنے والی رقم میں سے 800ملین مریم نواز کو تحفے میں دیا ،جس پر عدالت نے کہاکہ بیٹی کو دینا کوئی جرم تو نہیں جس پر نیب پراسیکیوٹر نے کہاکہ ہم نہیں کہتے کہ بیٹی کو پیسے دینا جرم ہے ،ہمارا کیس یہ ہے کہ نوازشریف ایچ ایم ای کے بینفشری ہیں ،اس موقع پر نیب پراسیکیوٹرنے نوازشریف کی طرف سے مریم نواز کو بھیجی گئی رقم کے حوالہ سے تصحیح کرائی کہ نوازشریف نے مریم نواز کو800ملین روپے منتقل کیے ،اس موقع پر عدالت نے کہا کہ نوازشریف نے جوابات دیے ہوئے ہیں ان کو چیک کروالیں گے اور مزید سماعت پیر تک کیلئے ملتوی کردی گئی۔