اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)معروف صحافی مظہر برلاس اپنے کالم میں ایک جگہ لکھتے ہیں کہ 9ستمبر کی دوپہر نومنتخب صدر ڈاکٹرعارف علوی کی تقریب حلف برداری تھی۔ اس تقریب میں علی رضا علوی کے ساتھ شریک ہوا۔ بہت سے لوگوں سے ملاقات ہوئی۔ پنجاب کے وزیراعلیٰ سردار عثمان بزدار سے کافی گپ شپ ہوئی۔ یہ تمام گپ شپ سرائیکی زبان میں ہوئی۔ فوجی قیادت سے بھی ملاقات ہوئی۔
وفاقی وزرا اور اراکین اسمبلی سے بھی میل جول رہا۔ جب نور عالم خان ہمارے ساتھ کھڑے تھے تو زرتاج گل خصوصی طورپر ملنے آئیں۔ ڈاکٹر عارف علوی صدرمملکت سے ملاقات کے بعد جونہی میں چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار کی طرف بڑھا اور انہیں اپنا نام بتایا توکہنے لگے کہ ’’میں آپ کےکالم جنگ میں پڑھتا ہوں‘‘ پھرمیں نےانہیں راوین ہونے کا بتایا تو ملاقات میں اور گرم جوشی آگئی۔9ستمبر کی شام ممتاز کشمیری رہنما یٰسین ملک کی اہلیہ مشال ملک کی ہمشیرہ کی شادی تھی۔ یٰسین ملک کو بھارتی حکومت نے پاکستان نہیں آنے دیا۔ انہیں اپنی ہمشیرہ نسبتی کی شادی میں شریک نہیں ہونے دیا۔ اسی لئے مہمانوں کو مشال ملک اور ان کی والدہ ریحانہ حسین ملک خوش آمدید کہہ رہی تھیں۔ یہاںپر بھی ملک کے چنیدہ لوگوں سے ملاقات ہوئی۔ پہلے ہم تمام لوگوں کے درمیان بیٹھے ہوئے تھے پھر چند سیاستدانوں اور چند صحافیوں کو ایک الگ کمرے میں بٹھا دیا گیا۔ یہاں پنجاب کےگورنر چوہدری محمدسرور نے اپنی حکومت کامقدمہ خوب لڑا۔ انہوں نے تحریک انصاف کی حکومت کا موازنہ سابقہ حکومتوں سے کیا۔ خوب کیا کہ سابق چیف جسٹس افتخا ر محمد چوہدری کو لاجواب کردیا۔ اس بات کے گواہ رحمٰن ملک اور ظفرعلی شاہ بھی ہیں بلکہ آزاد کشمیر کے صدر سردارمسعود خان بھی ہیں۔ جب چوہدری سرور اپنے کارکنوں کی بات کررہے تھے تو ایک صحافی بولا
’’کارکن نہیں فین‘‘ اس پر وہاں موجود تحریک انصاف کے حنان نیازی نے اونچی آوازمیں کہا کہ ’’ہم کارکن ہیں،ایسا نہ کہیں کیونکہ تحریک انصاف میں بڑے دلیرکارکن ہیں‘‘ 6ستمبر سے شروع ہونے والی ان 6تقاریب میں بہت سےلوگوںسے ملاقاتیں ہوئیں مگر یہ ملاقاتیں ادھوری تھیں۔ پوری ملاقاتیں ہوں گی تو پوری ملاقاتوں کا کچھ احوال لکھوں گا۔