کراچی (نیوز ڈیسک)سندھ کے مالی سال 2018-19کا 11 کھرب 44 ارب 44 کروڑ8 8 لاکھ روپے کا بجٹ پیش کردیا گیا ہے ۔بجٹ خسارہ 20ارب 45کروڑ 75لاکھ روپے ہوگا ۔صوبائی بجٹ میں کوئی نئی ترقیاتی اسکیم نہیں رکھی گئی ہے ۔نئی ترقیاتی اسکیموں کا فیصلہ آئندہ منتخب حکومت کرے گی ۔بجٹ میں کوئی نیا ٹیکس نہیں لگایا گیا اور نہ ہی موجودہ ٹیکسوں میں کوئی ردوبدل کیا گیا ہے ۔سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور ریٹائرڈ ملازمین کی پینشن میں 15 فیصد اضافہ جبکہ سندھ کی
یونین کونسلز کا ماہانہ بجٹ دو لاکھ سے بڑھا کر پانچ لاکھ کر دیا گیا ہے ۔صوبے میں امن وامان کے لیے 95 ارب روپے سے زیادہ کا بجٹ رکھا گیا ہے ۔بجٹ میں صوبائی سالانہ ترقیاتی پروگرام کے لیے 252 ارب روپے،اضلاع کے سالانہ ترقیاتی پروگرام کے لیے 30 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں ۔وفاقی حکومت کی امداد سے چلنے والے منصوبوں کے لیے 15 ارب روپے کا تخمینہ لگایا گیا ہے ۔غیر ملکی امداد سے چلنے والے منصوبوں کے لیے 46 ارب 89 کروڑ روپے کا تخمینہ لگایا گیا ہے ۔آئندہ مالی سال کے لیے صوبے کے غیر ترقیاتی اخراجات 7 کھرب 73 ارب روپے سے زیادہ ہوں گے ۔بجٹ میں سرمایہ جاتی اخراجات کا تخمینہ 27 کروڑ 30 ارب روپے لگایا گیا ہے ۔تعلیم کے شعبہ کے لیے 230 ارب روپے ،سندھ بھر میں لڑکیوں کو وظائف دینے کے لیے 1.2 ارب روپے رکھے گئے ہیں ۔صوبے بھر میں میٹرک اور انٹر میں اے ون گریڈ حاصل کرنے والے طالب علموں کے لیے 102 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں ۔آئندہ سال سندھ پولیس میں کل 17 ہزار نئی بھرتیاں کی جائیں گی ۔سی پیک سکیورٹی کے لیے 2782 افراد کو نوکریاں فراہم کی جائیں گی ۔جمعرات کو سندھ اسمبلی میں وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے نئے مالی سال کا بجٹ پیش کرتے ہوئے بتایا کہ گذشتہ سالوں کی بنسبت موجودہ مالی سال بیشتر حوالوں سے مختلف ہے ۔ ہم نے وسیع ترقی کے ایجنڈے کو کامیابی
سے مکمل کیا ہے۔ ہم نئے چیلنجز اور مقابلے کے دوسرے مرحلہ میں داخل ہو رہے ہیں ۔دہشتگردی نے ہمارے وسائل و توانائیوں کو تباہ کر دیا تھا لیکن اب اسکا خاتمہ ہو چکا ہے۔سندھ میں طویل عرصہ سے چھائی ہوئی خوف و دہشت کی فضا اب ختم ہو چکی ہے۔ خصوصا کراچی کی زندگی خوشحالی کی جانب آچکی ہے ایک بارپھر روشنیوں کا شہر بن چکا ہے۔ پی ایس ایل کا انعقاد کراچی میں ہونا اس حقیقت کا واضح ثبوت ہے، سر آغا خان و سید نا برہان الدین کی کراچی دورے بھی واضح ثبوت ہیں ۔
شہر کراچی کا کاروبار اور سماجی زندگی اپنے روایتی بہتری کی جانب گامزن ہے ۔اچھی تعلیم و صحت کے موا قع اور رو ز گا ر کے شفا ف موا قع مہیا کرنا سیاسی حکومت کیلئے خواب اور وعدہ تکمیل ہے۔یہ خوا ب سیا سی استحکا م اور مستحکم معا شی نمو کے ذر یعے ہی ممکن ہے ۔انہوں نے کہا کہ اس سال ہم نے پورے مالی سال 2018-19کے لئے بجٹ تجاویز تیار کی ہیں۔درخواست کرتا ہوں کہ یکم جولائی سے 30 ستمبر 2018تک صرف تین ماہ کے اخراجات کی اجازت دی جائے۔
آئین کے مطابق ہمیں آئندہ پورے مالی سال کیلئے بجٹ منظور کرنے کا اختیار حاصل ہے مگر پارٹی کے اصولوں کے پیش نظر سمجھتا ہوں کہ آئندہ آنے والی حکومت کا حق ہے۔لگاتار دو سال کے بجٹ میں کوئی بھی نیا ٹیکس لگانے کی تجویز نہیں دے رہے۔مراد علی شاہ نے کہا کہ بجٹ 2018-19ٹیکس فری ، فلاح و بہبود پر مشتمل ایک بجٹ ہے۔زیادہ ترجیح ٹیکس دہندہ پر مزید بوجھ ڈالے بغیر موجودہ ٹیکس کی بنیاد کو وسیع کرنے پر دی ہے۔اس بجٹ میں فنانس بل برائے 2018-19متعارف نہیں کرایا جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ ہماری آمدنی کا تقریبا75فیصد وفاقی منتقلیوں ، وفاقی قابل تقسیم پول میں سے حصہ ، براہ راست منتقلیاں اور آکٹرائے ضلع ٹیکس کی معطلی کے نتیجہ میں نقصان کو پورا کرنے کی مد میں گرانٹ پر انحصار ہے ، جو کہ این ایف سی فارمولا کے تحت صوبوں میں تقسیم کئے جاتے ہیں ، نویں این ایف سی ایوارڈ پر فیصلہ کافی عرصہ سے تعطل کا شکار ہے۔این ایف سی ایوارڈ نہ ملنے سے سندھ کو بڑے معاشی خسارے کا سامنا ہے ۔ہم نے وفاقی حکومت پر زور دیا ہے کہ سندھ سے ریوینیو وصولی
دیگر صوبوں کے مقابلہ میں بہت زیادہ ہے۔خدمات پر سیلز ٹیکس کی مد میں صوبوں کو صرف ایک ٹیکس وصولی کا اختیار ہے لیکن باوجود اسکے ایک دہائی سے وفاقی حکومت یہ دلیل دیتی ہے کہ صوبوں کے پاس ٹیکس وصولی کی صلاحیت نہیں ہے۔انہوں نے کہا کہ بااختیار وفاق کے پاس مالی سال2010-11میں وصولی 16ارب روپے تھی ، اختیار صوبوں کو منتقل ہوا تویہ وصولی 78.66 ارب روپے رہی۔ثابت ہوتا ہے کہ صوبوں کے پاس اختیار کی منتقلی سے وصولی میں خاطر خواہ اضافہ ویکھنے میں آیا ہے۔
وفاقی حکومت سے یہ مطالبہ کرتا ہوں کہ وہ اشیا پر سیلز ٹیکس کی وصولی کا اختیار بھی صوبوں کو منتقل کرے۔مراد علی شاہ نے کہا کہ سندھ حکومت نے تعلیم ، صحت ، صاف پانی کی فراہمی اور نکاسی آب کے بنیادی ڈھانچہ کی بہتری کی منصوبابندی کی ہے۔کراچی میں BRTSاورنج لائن، اور ریڈ لائن کے ذریعے اربن ٹرانسپورٹ اور کمیو نی کیشن کی تعمیر کی منصوبہ بندی بھی کی ہے ۔ تعلیم، صحت، غذا کی فراہمی ، فوڈ سیکیورٹی ، واٹر سپلائی ، توانائی اور بنیادی ڈھانچہ کے اہم منصوبوں پر عملدرآمد کے لئے
کوششیں جاری ہیں۔مراد علی شاہ نے کہا کہ مالی سال 2017-18کے لئے کل صوبائی وصولی کا تخمینہ 1028.9جبکہ اخراجات کا تخمینہ 1043.2ارب روپے لگایا گیا تھا۔رواں مالی سال کے لئے 1124ارب روپے کے مقابلہ میں وصولیوں کا تخمینہ 8.5فیصد اضافے کو ظاہر کرتا ہے۔ ریوینیو اسائنمنٹ اور براہ راست منتقلیاں اور گرانڈز کی مد میں وصولیوں کا تخمینہ665.1ارب روپے لگایا گیا ہے۔ وفاقی حکومت کی جانب سے کی جانے والی وصولیاں صوبے کی کل آمدنی کا63.6فیصد ہے ۔ وفاقی PSDPوصولیوں کا تخمینہ 15ارب روپے ہے۔ غیر ملکی امداد بجٹری سپورٹ لونز اور گرانٹسز کی سے وصولیوں کا تخمینہ 46.9ارب روپے ہے۔ صوبے کی اپنے وسائل سے آمدنی کا تخمینہ 243 ارب روپے ہے جن میں ٹیکس اور نان ٹیکس وصولیاں شامل ہیں ۔صوبے کے اپنے وسائل کے ہدف میں 18فیصد اضافہ ہوا ہے۔ اخراجات کی مد میں بجٹ تخمینہ 1144.2رب روپے لگا یا گیا ہے جو کہ 8.8فیصد اضافے کی عکاسی کرتا ہے۔رواں مالی سا ل اخراجات بشمول رواں محاصل اخراجات 773.2بلین روپے اور رواں کیپیٹل اخراجات 27.1بلین روپے 800.3بلین روپے کے مقابلے میں ہے۔ آئندہ مالی سال کے لئے موجودہ اخراجات مجموعی صوبائی بجٹ کا 69.9فیصد ہوگا۔مالی سال 2018-19کے لئے ترقیاتی اخراجات کا تخمینہ 343.9ارب روپے لگایا گیا ہے۔ سندھ پائیدار ترقی کی ایک دہائی دیکھ چکا ہے ، ہم سندھ کی ترقی اور خوشحالی کی نئی بلندیوں تک رسائی کا عزم رکھتے ہیں ۔وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ مالی سال 18-2017کے دوران ترقیاتی بجٹ کیلئے 274 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں ۔274 ارب روپے سے 226.00ارب روپے نظر ثا نی اور کٹو تی کی گئی ہے ۔بشمو ل ڈسٹرکٹ ADPمنصو بو ں کیلئے مختص 28ارب رو پے سے بھی کٹوتی کی گئی۔محکمہ روا ں ما لی سال 2017-18میں 714منصو بو ں کو مکمل کر ے گا۔پچھلے ما لی سال 2016-17میں اے ڈی پی کے 536منصو بے مکمل کئے گئے تھے ۔انہوں نے کہا کہ سندھ کیلئے سال 19-2018میں ترقیاتی بجٹ کا کل تخمینہ 343.90ارب روپے ہوگا ۔کل تخمینہ سے 282 ارب روپے صوبائی بجٹ سے دئے جائیں گے۔46.894ارب روپے غیر ملکی امداد کے منصوبوں سے ملیں گے۔وفاقی حکومت کی جانب سے 15.02ارب روپے PSDPکی اسکیموں کے لئے فراہم کئے جائیں گے۔سندھ حکومت 19-2018میں سالانہ ترقیاتی پروگرام (ADP)میں مختص کی گئی رقم سے زیر تکمیل اسکیموں کے لئے 80فیصد ترقیاتی بجٹ تیار کرنے اور نئی اسکیموں کے لئے 20فیصد کی گنجائش رکھنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ صوبائی ترقیاتی بجٹ میں 252ارب روپے صوبائی ADPسال 2018-19میں شامل ہیں۔صوبائی ADP کے لیے 80فیصد رقم یعنی 202ارب روپے 2226زیر تکمیل اسکیموں کے لئے مختص کئے گئے ہیں۔ تمام محکموں کی نئی ترقیاتی اسکیموں پر 50 ارب روپے رکھی گئی خطیر رقم سے مکمل کی جائیں گی۔نئی ترقیاتی اسکیموں کو 20فیصد ترقیاتی بجٹ کے طور پر آئندہ حکومت کی جانب سے طے کی جانے والی ADP 2018-19میں تمام شعبہ جات کے لئے نئی اسکیموں کی مد میں علیحدہ علیحدہ بلاک ایلوکیشن مختص کیا گیا ہے۔ڈسٹرکٹ ADP 2018-19کے لئے 30ارب روپے مختص کئے گئے ہیں۔انہوں نے نظر ثانی شدہ تخمینہ کے حوالے سے بتایا کہ موجودہ مالی سال18-2017کے بجٹ تخمینہ کی رقم 966.6ارب روپے ہے۔رواں سال کے مقابلے میں نظر ثانی شدہ آمدنی1028.9ارب روپے مقرر تھی۔ صوبائی حکومت بڑے پیمانے پر وفاقی منتقلی پر انحصار کرتی ہے جو اس کے محاصل کا 61فیصد پر مشتمل ہوتا ہے۔وفاقی منتقلی کی جانب سے کمی صوبائی وصولی پر بہت زیادہ اثرات مرتب کرتی ہے۔ وفاق کی جانب سے حکومت سندھ کو منتقلی مالی سال کے دوران تخمینہ سے کم رہی۔مالی منتقلیوں میں غیر متوقع طور پر کمی صوبائی حکومت کے بجٹ کی تیاری پر اثر انداز ہوتی ہے۔غیر ترقیاتی اور ترقیاتی مد میں اخراجات کا انحصار انہی منتقلیوں پر ہوتا ہے۔ وفاقی منتقلی کے نظر ثانی تخمینہ 2017-18میں 28.5ارب روپے کی کمی دیکھنے میں آئی ہے۔ وفاقی PSDPکی وصولیوں 27.3ارب روپے میں سے 20.4ارب روپے تک کمی کی گئی ہے ۔42.7ارب روپے کے مقابلہ میں غیر ملکی امداد کی رقم میں 27.7ارب روپے تک کی نظر ثانی کی گئی ہے۔مراد علی شاہ نے کہا کہ صوبائی ریوینیو وصولیوں کے حوالے سے ٹیکس وصولی کی مد میں ہم بڑی حد تک کامیاب ہوئے ہیں۔ سندھ روینیو بورڈ اور ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن اور نارکوٹکس کنٹرول ڈپارٹمنٹ اپنے ٹیکس اہداف پورے کرنے میں کامیاب رہے ہیں۔رواں مالی سال کے دوران زمینوں کی خرید و فروخت کے باعث ٹیکس وصولیوں کے ہدف میں چھوٹ دی گئی ہے۔199.6ارب روپے کے تخمینے کے مقابلے میں صوبائی ٹیکس اور غیر ٹیکس وصولیوں میں 197ارب روپے تک نظر ثانی کی گئی ہے۔اخراجات کے حوالے سے بجٹ میں 1043.2ارب روپے میں سے 987.8ارب روپے تک کی نظر ثانی کی گئی ہے۔ موجود ہ اخراجات میں 666.5ارب روپے میں سے 685.2ارب روپے تک نظر ثانی کی گئی ہے۔اضافے کی بنیادی وجہ ریٹائرڈ ملازمین کی پنشن اور معیشت کے مختلف شعبہ جات کی گرانٹس میں اضافہ ہے۔344ارب روپے کے مقابلہ میں ترقیاتی اخراجات میں 282.4ارب روپے تک کی نظر ثانی کی گئی ہے۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ رواں مالی سال کے دوران ترقیاتی فنڈز کابھر پور استعمال بھی ریکارڈ کیا گیا ہے۔ کل تک ترقیاتی اخراجات143.3ارب روپے ریکارڈ کئے گئے ۔سید مراد علی شاہ نے کہا کہ سندھ پو لیس کی پیشہ وارا نہ صلا حیتو ں میں اضا فہ سمیت خصو صی یو نٹس بھی تشکیل دیئے گئے ہیں، جن میں کا نٹر ٹیرریزم ڈیپا ر ٹمنٹ ،اسپیشل سیکیو ر ٹی یو نٹ ،ریپڈ رسپا نس فو ر س ،اینٹی رپو ر ٹ یو نٹ ،اینٹی کا ر لفٹنگ سیل اور آئی ٹی کیڈر شا مل ہیں۔سندھ پو لیس کی صلا حیتو ں میں اضا فے کیلئے NTS کے ذر یعے میر ٹ کی بنیا د پر بھر تیا ں کی گئی ہیں، اس کیلئے فو ج کی نگرا نی میں تر بیت ،بہتر پیکج ،ویلفیئر اسکیم ،شہید کمپینیشن ،ریکنگا ئز یشن ایکٹ 2014 بھی متعا ر ف کرا ئے گئے ہیں۔ شہید ہو نے والو ں کے خا ندا نو ں میں اور زخمی ہو نے والے اہلکا رو ں کی ما لی معا ونت کیلئے1ہزا ر ملین روپے رکھے گئے ہیں ۔این ٹی ایس کے ذریعے 10ہزا ر پو لیس اہاک رو ں کی بھر تیا ں کی گئی ہیں ۔فو ج کی نگرا نی میں بھر تی کئے گئے پو لیس اہلکا رو ں کی تر بیت کے 159ملین رو پے رکھے گئے ہیں ۔تحقیقا ت کے معیا ر کو بہتر بنا نے کے لئے فا ر نزک لیب ،ڈی این اے لیب اور ریکار ڈ ڈیٹا کا قیا م شا مل ہے ۔سندھ پو لیس کی تا ریخ میں پہلی با ر پو ر ے سندھ میں ڈرا ئیونگ لا ئسنس کو ر یئر سر وس کے ذر یعے امیدوارو ں کے گھرو ں تک پہنچا ئے جا رہے ہیں ۔ڈو یژنل ہیڈ کوار ٹر کی سطح پر پبلک پو لیس کے ما بین دو ستا نہ ما حو ل قا ئم کر نے کیلئے فیسیلٹی مرا کز کوبہتر بنا یا جا رہا ہے تا کہ شہر یو ں کو ون ونڈو سرو س مہیا ہو سکے جس میں FIRکی رجسٹریشن اور دیگر شکا یا ت کا اندرا ج شا مل ہے ۔انہوں نے کہا کہ سی ٹی ڈیکی پیشہ وارا نہ مہا ر ت کو کا نٹر ٹیر ریزم فو ر س کے مطا بق بنا یا جا ئے گا ۔ شہید اہلکا رو ں کے لوا حقین اور زخمی اہلکا رو ں کی ما لی امدا د کے لئے دیگر صو بو ں کی طر ح 2ارب رو پے کی ما لی امدا د کا پیکج رکھا گیا ہے ۔ سی پیک کے لئے سیکیو ر ٹی کیلئے 2782بھر تیا ں کی جا ئیں گی ۔ٹریننگ ،کرا ئم برا نچ ،ٹریفک ،ٹیکنیکل اور ٹریننگ سندھ کے یونٹس کو بہتر بنانے کے لئے 2959اسامیوں کی تخلیق اور سندھ کے مختلف رینکس میں 11259بھر تیا ں بھی کی جا ئیں گی۔ اثا ثو ں کی خریدا ری کے لئے2018-19کی SNEمیں 5.712ار ب رو پے رکھے گئے ہیں، جس میں سندھ پو لیس کیلئے 5.348ارب رو پے ،پا کستا ن رینجرز(سندھ ) کیلئے 306.855ملین رو پے ، فرنٹیئر کا نسیٹبلری سندھ 14.865ملین اور محکمہ داخلہ اور اس سے متعلقہ دفا تر کیلئے 42.996ملین رو پے رکھے گئے ہیں ۔انہوں نے کہا کہ جرا ئم کی مجمو عی صو ر تحا ل پر قا بو پا نے کے لئیصو با ئی حکومتو ں نے اپنے طو ر پر اقدا ما ت بھی کئے ہیں ۔جن میں نیشنل ڈیٹا بیس کا قیا م جس میں قو می شنا ختی کا ر ڈ ،ڈرا ئیونگ لا ئسنس ،گا ڑ ی کی نمبر پلیٹ،اسلحہ لا ئسنس ،سم وغیر ہ کی معلو ما ت، قو می سطح پر قا نو ن نا فذ کر نے والے تما م ادا رو ں کے ساتھ کر یمنل ریکا ر ڈ کا ڈیٹا محفو ظ کر نا ،سو شل میڈیا بشمو ل فیس بک ،واٹس ایپ ،ٹیو ٹر وغیر ہ کی مو ثر اندا ز میں نگرا نی کرنا شامل ہے ۔شعبہ تعلیم کے حوالے سے وزیراعلیٰ سندھ نے بجٹ تجاویز سے آگاہ کرتے ہوئے وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہتعلیم ہماری اہم ترجیح اور ذمہ داری ہے ۔حکومت 5 سے16 سال تک کی عمر کے بچوں کی معیاری تعلیم فراہم کرنے کا بھرپور عزم رکھتی ہے۔امید کرتا ہوں کہ یہی بچے معاشرے اور معیشت کی ترقی میں اپنا کردا ر ادا کریں گے، طلبا حب الوطنی کا جذبہ ، رواداری، سماجی انصاف اور جمہوریت کی قدر کا احساس پیدا ہو۔انہوں نے کہا کہ تعلیم کے شعبہ میں رواں مالی سال میں 178.70ارب مختص کئے گئے ہیں ۔غیر ترقیاتی اخراجات کی مد میں 21.13ارب روپے کی رقم مختص کی گئی تھی۔ تعلیم کے شعبہ میں غیر ترقیاتی بجٹ کو 178.70ارب روپے سے بڑھا کر آئندہ مالی سال کیلئے 205.739ارب روپے کردیا گیاہے ۔سالانہ ترقیاتی پروگرام 2018-19میں جاری 309اسکیموں کے لئے 24.4ارب روپے رکھے گئے ہیں۔تمام شعبہ جات کی نئی ترقیاتی اسکیموں کے لئے مختص کی گئی خطیر رقم 50 ارب روپے میں سے مکمل کی جائے گی۔انہوں نے کہا کہ رواں مالی سال 18-2017کے دوران کچھ اہم کامیابیاں حاصل کی ہیں ۔ 11.250ارب روپے مختلف ترقیاتی اسکیموں کے لئے رکھے گئے ہیں اور 167اسکیموں کے مقابلے میں تقریبا996یونٹس جون 2018 تک مکمل کی جائیں گی، جن میں اپ گریدیشن ، تعمیر ،تعمیر نو ،بحالی ، مرمت اور تزئین و آرائش کے امور شامل ہیں ۔جائیکا کے تحت 9 اسکولز اور یو ایس ایڈ کے تحت 22اسکولز جون2018تک مکمل کر لئے جائیں گے، شہید بینظیر آباد ، سکھر، لاڑکانہ ، ٹھٹھہ ، بدین ، سجاول ، جامشورو، نوشہرو فیروز، سانگھڑ ، خیر پور، گھوٹکی، میر پور خاص ، ٹنڈو محمد خان اور ٹنڈو الہیار اضلاع میں مزید 15انگلش میڈیم اسکولز مکمل کر لئے ہیں ۔ ٹھٹھہ ، سجاول، بدین ، جامشورو، میر پور خاص اور عمر کوٹ اضلاع میں 6کمپری ہنسو اسکولز جون 2018 تک مکمل کئے جائیں گے۔ 5سے 16سال کی عمر کے بچوں میں مختلف اسکولز کی سطح پر معیاری اور مساوی تعلیم کو بہتر بنا رہے ہیں۔اسکول چھوڑنے کی شرح میں کمی اور داخلہ میں اضافے کے لئے زیادہ سے زیادہ اقدامات اٹھایا جارہا ہے۔ داخلے رکھنے والے 4204اسکولز کی بحالی اور توسیع کے لئے ایک اہم قدم اٹھایا جا رہا ہے۔ اسکولز کے مرمت کے کام ، چار دیواری ، واش روم، فرنیچر، اور پینے کے پانی کی فراہمی جیسی سہولیات فراہم کرنا شامل ہے، رواں مالی سال 2017-18کے دوران تقریبا 2100اسکولوں کو 9.635ارب روپے کی لاگت سے سہولیات فراہم کی جائیں گی۔شعبہ تعلیم میں آئندہ مالی سال 19-2018کے وژن سے متعلق بھی اقدامات کئے ہیں۔ شہید ذو الفقا ر علی بھٹو لا یو نیورسٹی کو مو جو دہ اسکیم کے تحت 250ملین رو پے کی لا گت سے سہو لیا ت فرا ہم کی جا ئیں گی ۔ فر نیچر ،اسٹیشنری ،سفری اور دیگر سہو لیا ت کیلئے 4.9ار ب رو پے ،اسکول اسپیسیفک بجٹ رکھا جا رہا ہے۔ 1.2ار ب رو پے لڑ کیو ں کیلئے وظائف کی مد میں رکھے گئے ہیں ۔ 1.2ار ب رو پے اسکول مینجمنٹ کمیٹیز کے لئے مختص کئے گئے ہیں ۔ کمیو نٹی مو بلا ئزیشن پرو گرا م کے ذر یعے تقریبا33اسکو لو ں میں سے 23اسکو لو ں کی دو با ر ہ تعمیر اور پبلک پرا ئیوٹ پا ر ٹنر شپ کے تحت ای ایم اوز کے حوالے کر نا ،اس سے 7ہزا ر اضا فی طالب علمو ں کو فائدہ پہنچے گا۔مراد علی شاہ نے کہا کہ میٹر ک اورانٹر میں سندھ بھر میں A-1گریڈ حا صل کر نے والے طا لب علمو ں کیلئے 1.2ار ب روپے رکھے گئے ہیں۔25اسکو لو ں کوکیمبرج سسٹم کے تحت ( نر سر ی سے او لیول اور 25اسکو لو ں کو کمپری ہینسو ہائی اسکو ل کی طر ز پر سندھ بھر میں قا ئم کئے جا رہے ہیں ۔ سندھ بھر میں 267ملین روپے کی سا لا نہ آپریشنل لاگت سے 28نئے ڈگری کا لجز قا ئم کئے گئے ہیں۔ 750ملین رو پے Innovative Initiativesکے لئے مختص کئے گئے ہیں ۔سروے کے مطابق اہم 4560اسکو لو ں کی بحا لی اور اضا فے کیلئے چھو ٹے بڑ ے تعمیری امو ر مطلوبہ سہو لیا ت کی فرا ہمی شا مل ہے ۔1973موجودہ سرکاری اسکولوں کو صاف اور محفوظ پینے کے صاف پانی کی فراہمی 2018-19کے سالانہ ترقیاتی پروگرام میں متوقع 840ملین روپے کی لاگت سے مزید 2000اسکولوں کی12 نئی ترقیاتی اسکیمیں شامل ہیں ۔ سندھ بیسک ایجوکیشن پروگرام کے تحت غیر ملکی فنڈز کے ذریعے 106اسٹیٹ آف دی آرٹ اسکولز معیاری تعلیم کی فراہمی شامل ہیں۔انہوں نے کہا کہ لڑکیوں کے داخلے بڑھانے پر کام کرتے ہوئے شمالی سندھ کے 7 اضلاع میں کام جاری ہے ۔اگلے مالی سال میں اس پروگرام کو مزید بڑھاتے ہوئے ضلع شکارپور اور گھوٹکی کو شامل کیا جائے گا۔سندھ بیسک ایجوکیشن پروگرام کے تمام اسکولوں کو شمسی توانائی کے ذریعے بلا تعطل بجلی کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے گا۔ سندھ تعلیمی شعبہ کے لئے جاری اسکیموں کے لئے سالانہ ترقیاتی پروگرام کے تحت24.4ارب روپے بھی مختص کئے گئے ہیں، جن میں 3.2ارب روپے بورڈز اور یونیورسٹیز ، 958.5ملین روپے STEVTAاور 200ملین روپے خصوصی تعلیم ، 5ارب روپے کالجز ایجوکیشن اور 15ارب روپے اسکول ایجوکیشن کے لئے مختص کئے گئے ہیں۔صوبائی سالانہ ترقیاتی پروگرام کے تحت غیر ملکی فنڈز سے چلنے والے محکمہ تعلیم کے منصوبوں کے لئے 3 ارب روپے رکھے گئے ہیں ۔ 8.69ارب روپے کی لاگت سے 57جاری اسکیموں کے تحت 4560اسکولوں کی بحالی اور توسیع کی جائے گی۔سید مراد علی شاہ نے کہا کہ سندھ ایجوکیشن فانڈیشن صوبہ کے پس ماندہ علاقوں کے لئے تعلیم کے بہتر مواقع مہیا کر رہی ہے۔ فاؤنڈیشن سندھ میں تقریبا 555,943طالب علموں کو 2314اسکولوں میں انفرادی اور تنظیمی طور پر نجی شعبہ کے تعاون سے مضبوط پارٹنر شپ کے ذریعے خدمات انجام دے رہی ہے۔ سندھ ایجوکیشن فانڈیشن گذشتہ تین سال سے کامیابی کے ساتھ پوسٹ پرائمری ایجوکیشن سیکٹر پر کام کر رہی ہے۔تعلیم سے قاصر 10000سے 53058طالب علموں کو تعلیم بالغاں کے تحت مواقع فراہم کئے ہیں ۔ اس پروگرام کا مقصد 10سے 17سال کی عمر کے بچوں اور 18سے 35 سال کے بالغان کو تعلیم کے مواقع فراہم کرنا ہے۔ہم نے سندھ حکومت اور سندھ ایجوکیشن فانڈیشن کے سیکنڈری اور ہائر سیکنڈری اسکولوں میں نصاب کی ترتیب دے کر ایک نیا قدم اٹھایا ہے ۔سندھ حکومت چاہتی ہے کہ محکمہ تعلیم و سندھ ایجوکیشن فانڈیشن کے تحت چلنے والے اسکولز میں زیر تعلیم طلبا انفارمیشن ٹیکنالوجی کے متعلق نصاب سے منسلک ہوجائیں۔عبوری حکومت کو ان اقدام اور پروگرام پر عمل در آمد کرنے کے لئے سفارش کرتا ہوں ۔سندھ ایجوکیشن فانڈیشن کے بجٹ میں آئندہ مالی کیلئے 9.598بلین روپے رکھنے کی تجویز دے رہے ہیں۔ جبکہ رواں مالی سال 2017-18میں 8.085بلین روپے رکھے گئے تھے۔کالج ایجوکیشن کے حوالے سے وزیراعلیٰ سندھ نے بتایا کہ سالانہ ترقیاتی پروگرام 2018-19کی جاری 48اسکیموں کے لئے کالج ایجوکیشن کے لئے 5000ملین روپے مختص کئے گئے ہیں ۔12نئے کالج حیدر آباد ، کورنگی، ملیر ، ضلع غربی کراچی ، عمر کوٹ ، سکھر، جامشورو، شکار پور اور جیکب آباد کے اضلاع میں ایک ایک جبکہ ضلع سانگھڑ میں 2 نئے کالج قائم کئے جائیں گے۔ سکھر میں لا کالج اور نو شہرو فیروز ، سکھر ، جیکب آباد اور عمر کوٹ میں 5آئی بی اے کمیونٹی کالج قائم کئے جائیں گے۔ اضلاع کے اندر موجودہ کالجز میں تعمیراتی بحالی ، مرمت اور تزئین و آرائش کا کام مکمل کیا جائے گا۔ حیدر آباد ، میر پور خاص ، شہید بینظیر آباد ، سکھر، لاڑکانہ اور کراچی میں ڈگری کالجز میں نیا فرنیچر فراہم کیا جائے گا۔ مٹھی ، تھرپارکر ، ککر(دادو)، کرم پور،کشمور کندھ کوٹ، خیر پور ، بدین ، جیکب آباد میں لڑکوں کے لئے7نئے کیڈٹ کالج اور لاڑکانہ میں لڑکیوں کے لئے کیڈٹ کالج قائم کیا جائے گا۔انہوں نے کہا کہ خصوصی تعلیم میں مجموعی طور پر 1117.253ملین روپے مختص کئے ہیں، جس میں سے ترقیاتی شعبے کے لئے 213ملین اور غیر ترقیاتی شعبے میں 904.253ملین روپے رواں مالی سال 2017-18میں رکھے گئے۔آئندہ مالی سال کے لئے 1241ملین روپے مختص کئے جا رہے ہیں ۔ خصوصی تعلیم میںآٹزم بحالی اور تربیت کا مرکز قائم کیا گیا جوایک بڑا سنگ میل ہے اور یہ خصوصی بچوں کی ضروریات کو پورا کرے گاجبکہ گلستان جوہر میں آڈیو ویژول لائبریری کا قیام بھی ایک بڑا سنگ میل ہے۔انہوں نے کہا کہ تعلقہ کی سطح پر اسپیشل ایجوکیشن مراکز کا قیام جو بہتر طریقے سے خصوصی بچوں کی ضروریات کو پورا کریں گے۔ 21نئے گورنمنٹ اسپیشل ایجوکیشن سروس سینٹر ز کی تزئین و آرائش کا کام جاری ہے۔امید ہے کہ رواں مالی سال 2017-18کے اختتام سے قبل 12 مراکز کی تزئین و آرائش مکمل کر لی جائے گی۔سید مرا د علی شاہ نے کہا کہ محکمہ صحت کو ہمیشہ سے ہماری سماجی شعبہ کے ایجنڈے میں بہت اہمیت حاصل ہے۔ گذشتہ ایک عشرہ کے دوران حکومت سندھ نے شعبہ صحت میں بہتری لانے کے لئے کثیر سرمایہ خرچ کیا ہے۔شعبہ صحت میں مزید بہتری لانے کے لئے نجی شعبہ کو بھی صحت کی پرائمری اور سیکنڈری سطح پر فراہمی کے لئے اپنے ساتھ شامل کیا ہے۔1210صحت کے مراکز کو PPHIاور دیگر غیر سرکاری تنظیموں کیحوالہ کیا گیا ہے،جس میں ڈسپنسریاں بنیادی صحت کے مراکز ، دیہی صحت کے مراکز VICHمراکز، چند ٹی ایچ کیو اورڈی ایچ کیو اسپتال شامل ہیں ۔ان اقدامات کی کامیابی کو مد نظر رکھتے ہوئے حکومت نے پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ میں توسیع کرنے کا منصوبہ بنایا ہے۔رواں مالی سال 2017-18کے دوران صحت کے شعبہ میں غیر ترقیاتی مد میں 85.3ارب روپے جبکہ ترقیاتی مد میں 15.50ارب روپے مختص کئے گئے تھے جبکہ آئندہ مالی سال 2018-19میں غیر ترقیاتی مد میں 12.2ارب روپے جبکہ ترقیاتی مد میں 12.50ارب روپے مختص کئے گئے ہیں ۔ شعبہ صحت میں 50ارب روپے سالانہ ترقیاتی پروگرام میں تمام شعبوں کے لئے علیحدہ سے 50ارب روپے مختص کئے گئے ہیں ۔ہماری توجہ جاری ترقیاتی اسکیموں کی تکمیل، موجودہ انفرا اسٹرکچر میں بہتری اور اس شعبہ میں نئی اسکیمیں شامل کرنے پر ہے۔ روا ں مالی سال 2017-18میں صحت کے شعبے میں 5.12 ارب روپے کی لاگت سے 68نئی اسکیمیں شروع کی گئی ہیں، جن میں RHCs، ٹراما کم ایمرجنسی مراکز اور تمام ڈویژنل HQRs میں ویئر ہاوسز کی کولڈ اسٹوریج کی سہولیات فراہم کرنے کی تعمیر شامل ہے، RHC کو اپ گریڈ کر کے THQکا درجہ دیا گیا ۔NIMRAجامشورو میں 1.086ارب روپے کی لاگت سے کینسر وارڈ کا قیام عمل یں لایا گیا ۔ EPI کا بجٹ سندھ ایمونائزیشن سپورٹ پروگرام کے تحت 100ملین روپے سے بڑھا کر 1.80ارب روپے کر دیا گیا ہے۔ تھر پیکیج کے تحت موجودہ 1063 LHWsمیں 982.31ملین روپے کی لاگت سے 2160 LHWs کا اضافہ شامل ہے۔نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیو ویسکیولر ڈزیز (NICVD)کی خدمات کو تسلیم کیے بغیر صحت کے شعبہ میں کامیابیوں کا ذکر مکمل نہیں ہو سکتا ۔ یہ ادارہ دنیا بھر میں دل کے دورے اور پرائمری انجیو پلاسٹی کے شعبے میں سب سے بڑا مرکز ہے۔NICVD سندھ کے عوام کو ان کی دہلیز پر بلا معاوضہ دل کی بیماریوں سے متعلق بر وقت علاج مہیا کر رہا ہے۔ اس وقت کراچی این آئی سی وی ڈی میں سینے کے درد کے چھ یونٹس فعال ہیں ۔بہت جلد کراچی سمیت سندھ کے مختلف حصوں میں 60ایسے مراکز قائم کئے جائیں گے۔سندھ بھر کے کارڈیک سہولتوں سے مزین NICVDسیٹلائٹ مراکز 24/7 ایمرجنسی کی سہولت 100فیصد بلا معاوضہ فراہم کر رہے ہیں۔ان مراکز میں بین الاقوامی اور انتہائی تربیت یافتہ اسپیشلشٹ پیرا میڈیکل اور تکنیکی ماہر ہر وقت موجود ہیں ۔212 ارب کی لاگت سے بہت جلد تین NICVD مراکز نواب شاہ خیر پور اور مٹھی میں فعا ل ہو جائیں گے۔انہوں نے کہا کہ 1213صحت سہولیات کے مراکز کی کارکردگی کی بنیاد پر آٹ سورس کر دئے گئے ہیں، ان میں 1049سہولیات کو PPHIاور 158صحت کے مراکز کو دیگر این جی اوز کو دئے گئے ہیں ۔108انٹیگریٹ ہیلتھ سروسز، 35 ہینڈز ، 01 انڈس ہاسپٹل 13 میڈیکل ایمرجنسی ریلیف فانڈیشن اور 01پاورٹی ایریڈیکیشن انیشیٹیو کو دئے ہیں۔ دو ریجنل بلڈ ٹرانفیوژن مراکز سکھر اور جامشورو میں بالترتیب سکھر بلڈ بنک اور انڈس اسپتال کو آٹ سورس کئے گئے ہیں ۔انہوں نے کہا کہ حکومت سندھ آئندہ مالی سال 2018-19کیلئے SIUTکو پانچ ارب روپے دے رہی ہے،جس میں 497.5ملین روپے کی لاگت سے لاڑکانہ میںSIUTکا قیام شامل ہے۔SIUT سکھر 552.27ملین روپے کی لاگت سے قائم کیا جا رہا ہے ۔اس ادارے کا مقصد مناسب طریقہ سے او پی ڈی تشخیص ، ڈائی لایسز اور دیگر خدمات کی فراہمی ہے۔ SIUTمیں بون میرو ٹرانسپلانٹیشن کی سہولت 692.779ملین روپے کی لاگت سے فراہم کی جارہی ہے، جس میں 50-100مریضوں کو آرٹ انفرا اسٹرکچر اور دیگر سہولیات فراہم کیا جاتا ہے۔مراد علی شاہ نے کہا کہ چائلڈ لائف فانڈیشن تین سرکاری اسپتالوں میں پی پی پی معاہدے کے تحت بچوں کے لئے ایمرجنسی رومز کو چلا رہی ہے جن میں ڈاکٹر رتھ فاؤ سول اسپتال کراچی، نیشنل اینسٹی ٹیوٹ آف چائلڈ ہیلتھ اور سندھ گورنمنٹ اسپتال کورنگی شامل ہے۔ مئی 2018میں چائلڈ لائف فانڈیشن دو مزید اسپتالوں عباسی شہید اسپتال کراچی اور لیاری جنرل اسپتا ل کراچی میں ایمرجنسی سروس شروع کرے گی۔ جون2018میں چائلڈ لائف ERآپریشن کی سہولت پیپلز میڈیکل کالج نواب شاہ اور چانڈکا میڈیکل کالج لاڑکانہ میں شروع کرے گی۔ 2018کے آخر تک بچوں کے ERsغلام محمد مہر میڈیکل کالج سکھر اور لیاقت یونیورسٹی آف میڈیکل اینڈ ہیلتھ سائنسز میں فعال ہوجائیں گے۔ GAMBATکی گرانٹ 1500 ملین روپے سے بڑھا کر 2.55بلین روپے کردی ہے ۔ شہداد پور انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ سائنسز کی گرانٹ کو 1750ملین روپے سیبڑھا کر 300ملین روپے کر دیا گیا ہے۔انہوں نے کہا کہ صوبہ سندھ کو اپنے بچوں میں کم غذائیت اور سوکھے کی بیماری کا چیلنج در پیش ہے۔سندھ کے 48فیصد بچے غذائی قلت اور سوکھے کی بیماریوں کا شکار ہیں۔ حکومت سندھ نے ورلڈ بنک کے تعاون سے کثیر الجہت منصوبوں کا آغاز کیا ہے تاکہ بچوں میں آئندہ پانچ سالوں میں سوکھے کی بیماری کی سطح کو کم کرکے 30 فیصد تک لایا جاسکے۔ سال برائے2017-18میں اس پروگرام کے تحت غیر ترقیاتی مد میں 2.4 ارب روپے مختص کرنے پر غور کر رہے ہیں۔ آئندہ سال کے لئے 5.1ارب روپے مختص کرنے پر غور کررہے ہیں۔ اس منصوبے کے لئے صحت زراعت ، لائیو اسٹاک اینڈ فشریز ، لوکل گورنمنٹ اور سوشل ویلفیئرکے محکمے اہم قرار دئے گئے ہیں۔اس سلسلے میں بڑی تعداد میں منصوبوں کی تجویز دی گئی ہے جن میں انٹرنیشنل سینٹر برائے کیمیکل اینڈ بائیو لوجیکل سائنسز کے لئے رقم کا مختص کیا جانا تاکہ کراچی یونیورسٹی میں قائم جمیل الرحمان سینتر برائے Genomeریسرچ میں DNAلیب قائم کی جاسکے۔ لیاری جنرل اسپتال میں کارڈیالوجی ڈپارٹمنٹ کر بہتر کرنا، سندھ اینٹی ٹیوٹ آف Opthalmology اور Visual Sciences حیدر آباد کو بہتر بنانا، لیاقت یو نیورسٹی ہسپتال حیدر آباد میں200بستروں پر مشتمل نیفرو لوجی، گیسٹرونلوجی ، اینڈو اسکوپی ،سویٹ ، ڈر میٹولوجی، اینڈو کرائینولوجی اور ڈائیبیٹیز بلاک کا قیا، شہید بینظیر آباد میں NICVDسیٹلائٹ مرکز کا قیام،شیخ زید کیمپس CMCHلاڑکانہ میں نرسنگ ہاسٹل ، بچوں اور عورتوں کے لئے وارڈز ، OT، ایکسٹرنل ڈولپمنٹ اور دیگر سہولیات کی فراہمی، میر پور خاص میں نرسنگ اسکول اور ہاسٹل کی عمارت تعمیر کرنا، ضلع شکار پور میں رورل ہیلتھ مرکز کو اپ گریڈ کر کے تعلقہ ہسپتال خانپور کا درجہ دینا، محکمہ صحت کے افسران و عملے کی استعداد کار کو مزید بہتر بنانے کے لئے ڈولپمنٹ ونگ کو بہتر کرناشامل ہے ۔انہوں نے کہا کہ صحت کے شعبے میں کی جا نے والی شا ندا ر پیش رفت میں OPDs اور IDPs اور سر جر ی وغیرہ میں بہتری لا ئی گئی ہے۔ما ر چ 2016میں ڈسٹرکٹ ہیڈ کوار ٹر ز بدین کا انتظا م انڈس ہسپتا ل کو پبلک پرا ئیوٹ پا ر ٹنرشپ کے تحت دیا گیا ہے ۔ یہ اسپتال اب سال کے 365دنو ں 24گھنٹے کھلا رہتا ہے ۔او سطاً تما م خد ما ت میں 10گنا ہ تک بہتری دیکھی جا سکتی ہے۔ اسپیشلا ئزڈ خد ما ت مثلا پیڈس ای آر ،تین شفٹو ں میں ڈائیلا ئسز ،معیا ر ی اور محفو ظ خو ن کی فرا ہمی اور بین الا قوامی معیا ر کے مطا بق تشخیص کی سہو لیا ت فرا ہم کی گئی ہیں ۔انڈس ما ڈل کیش لیس ،پیپر لیس اور معیا ر ی نگہدا شت کو منعکس کر تا ہے ۔ بدین کے شہری بہت جلد 250بسترو ں پر مشتمل بہترین خد ما ت کے اس اسپتال سے مستفید ہو سکیں گے ۔سید مراد علی شاہ نے کہا کہ عوامی حکومت نے رواں مالی سال 2017-18میں سالانہ ترقیاتی پروگرام میں 426ملین روپے مختلف منصوبوں کے لئے مختص کئے ہیں۔ خواتین کی ترقی حکومت کی اولین ترجیحات میں شامل ہے۔ اس سلسلہ میں سماجی ،اقتصادی ، سیاسی اور قانونی طور پر خواتین کو با اختیار بنانے کے لئے اہم اقدامات کئے ہیں۔آئندہ مالی سال کے لئے اسکیموں میں میرپور خاص میں سیلز اینڈ ڈسپلے ریسورس سینٹر کی تعمیر، مکلی میں وومن کلب کی تعمیر حیدر آباد اور لاڑکانہ میں وومن کلب کی تعمیر، حیدر آباد اور لاڑکانہ میں وومن کمپلیکس کی تعمیر،گھر وں میں کام کرنے والی خواتین کے روزگار اور معیار زندگی کو بہتر بنانا،کراچی میں خواتین کو ڈرائیونگ کی تربیت فراہم کرنااورجیکب آباد میں تربیتی مرکز اور کانفرنس ہال کی تعمیرشامل ہے ۔وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ ہم بغیر کسی مذہبی تفریق کے ملک کے تمام شہریوں کو برابری کی بنیاد پر حقوق کی فراہمی پر یقین رکھتے ہیں۔ سندھ میں اقلیتوں کیلئے آئندہ مالی سال 19-2018میں 750 ملین روپے کر رہے ہیں۔رواں مالی سال 18-2017میں اقلیتوں کیلئے مختص گرانٹ 500ملین روپے ہے۔مجوزہ رقم اقلیتوں کی مالی امداد و عبادت گاہوں کی مرمت اور تزئین و آرائش پر خرچ کی جائے گی ۔مراد علی شاہ نے کہا کہ ہم اپنی کمزور معیشت کی دوبارہ تعمیر اور عوام کا اداروں پر اعتماد بحال کرنے میں مشغول ہیں ۔معیشت کی سمجھ بوجھ رکھنے والے افراد کے لئے ہماری ترجیحات میں ایک نظریہ سمایا ہوا ہے۔ ہم نمائشی منصوبوں کے ذریعے اپنی مقبولیت میں اضافہ کے برعکس بنیادی ڈھانچہ کی ترقی اور اصلاحات پر توجہ مرکوز رکھتے ہیں۔ ہم نے ترقیاتی سرگرمیوں کا دائرہ پورے سندھ میں پھیلا دیا ہے۔شہری اور دیہی مراکز کو برابری کی بنیاد پر حصہ فراہم کیا ہے۔روڈ سیکٹر ڈیولپمنٹ اور توانائی کے شعبہ میں کئے گئے اقدامات قابل ذکر ہیں۔ ہم پبلک ٹرانسپورٹ نظام کی ترقی کی اہمیت سے بے خبر نہیں ۔کراچی میں گرین لائن اور اورنج لائن کا آغاز ہو چکا ہے جلدعوام مستفید ہوں گے۔مراد علی شاہ نے کہا کہ عوامی حکومت روڈ سیکٹر میں مضبوط ارادے سے ترقیاتی ایجنڈا پر عمل پیرا ہے۔ رواں مالی سال میں مندرجہ ذیل اقدامات کئے گئے ہیں۔ سالانہ ترقیاتی پروگرام میں روڈ سیکٹر کے لئے 25.77ارب روپے مختص کئے گئے ہیں، جس میں 400ملین روپے غیر ملکی امدادی منصوبوں کی مد میں مختص کی گئی رقم شامل ہے ۔ محکمہ ورکس اینڈ سروسز میں 1728کلومیٹر سڑکوں کی 205اسکیمیں سالانہ ترقیاتی پروگرام 2017-18میں مکمل کی گئی ہیں، جن میں 1179موجودہ سڑکوں کی بہتری اور 559کلومیٹر نئی سڑکوں کی تعمیر کی اسکیمیں شامل ہیں ۔ہم نے سرکاری اور نجی شراکت کی حکومتی پالیسی کے تحت متعدد اقدامات کئے ہیں ۔ خانگی شعبے کی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے زیادہ سے زیادہ کامیابی حاصل کی۔انہوں نے کہا کہ 49کلومیٹر کراچی ٹھٹہ دو رویہ سڑک 8.85ارب روپے کی لاگت سے مکمل کی گئی ہے،جس کا افتتاح 29مارچ2018کو کیا گیا۔انہوں نے کہ دریائے سندھ پر یہ منصوبہ تقریبا 10ارب روپے کی لاگت سے تعمیر کیا جا رہا ہے، جس کی تفصیلی فزیبیلیٹی رپورٹ پر کام کا آغاز کیا گیا ہے۔ اس اہم منصوبہ سے بلوچستان ، سندھ اور پنجاب کے عوام کو سفری سہولیات میسر آئیں گی ،جس سے یک طرفہ فاصلہ کم ہو جائے گا جس سے وقت اور توانائی کی بچت ہوگی۔ M9-N5لنک روڈ 22 کلومیٹر طویل منصوبہ ہے۔انہوں نے کہا کہ مجوزہ منصوبہ سپر ہائی وے (M9)اور نیشنل ہائی وے (N5) کو آپس میں ملائے گا۔ اس منصوبہ کا بنیادی مقصد ہائی ویز پر رواں ٹریفک کو منظم طریقہ سے فعال رکھنا ہے۔اس منصوبے کی تکمیل سے ملیر ، بن قاسم اور لانڈھی ٹان پر ٹریفک کا دبا ؤکم ہوگا ۔ سر آغا خان جھرک ، ملا کاتیار پل کی تعمیر 4.5ارب روپے سے مکمل کی گئی ہے۔ جاتی ریلوے پھاٹک شہداد پور پر عبدالسلام تھئیم فلائی اوور کی تعمیر ، روہڑی کینال پر شہید بینظیر آباد سے قاضی احمد تک پل کی تعمیر، مراد علی شاہ نوشہرو فیروز سے نواب شاہ تک 57کلومیٹر طویل سڑک کی تعمیر اور بہتری، ٹنڈو الہیار میں سدرن بائی پاس کی تعمیر، میر واہ سے میر پور شوگر مل کے نزدیک عمر کوٹ روڈ تک(1500 KM)سڑک کی تعمیر و بہتری،کراچی ٹھٹھہ حیدر آباد سڑک کی جھمپیر اور ملا کاتیار پل تک سڑک کی تعمیر(36.76کلومیٹر ، انڈس ہائی وے سڑک کی بہتری (mile 5/6-17/4 (18.92 Km) (اسفالٹ،سعید آباد سے شہید بینظیر آباد روڈ بشمول روہڑی کینال پر برج کی تعمیر mile 6/0- 25/0 (30 Km) گھوڑا باری سے گھارو سڑک کی توسیع اور بہتریmile (25 Km، متارو کاریو گھنور سے کھارواہ روڈ 38.64کلو میٹر، میہڑ سے ڈوکری براستہ رادھن سڑک کی بہتری 45.05 کلومیٹر،لاڑکانہ میرو خان روڈ mile 1/6-17/0(24.53کلو میٹر،ٹنڈو الہیار ۔ ٹنڈو آدم روڈ (28.96کلومیٹر) کی توسیع اور بہتری،سانگھڑ سے کھپرو براہ راست دل شاخ اسفالٹ فیز کے ساتھ 27.97کلومیٹر روڈ کی توسیع اور مرمت، نوابشاہ پڈعیدن سے جلال جی Chowdagiروڈ mile 67.50 Km، نوشہرو فیروز سے مہران ہائی وے براہ راست پھل اور دریا خان مری ورڈ 32کلومیٹر کی بہتری اور بدین سیرانی سے بھرگرا میوں روڈ 32کلو میٹر کی توسیع کی توسیع اور مرمت شامل ہے ۔انہوں نے کہا کہ سندھ حکومت نے پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کو فروغ دینے کے لئے ایشیائی ترقیاتی بنک سے تعاون کی درخواست کی ہے ۔ اس سلسلہ میں تجویز کردہ اضافہ ملک کے آپریشنل بزنس پلان 2014-16میں شامل کیا گیا تھا۔ جس سے حکومت سندھ مزیدمالی طور پر پائیدار اور ذمہ دارانہ پی پی پی موڈ کو فروغ دے گی۔ اس منصوبہ کا تخمینہ 184.13ملین امریکی ڈالر ہے، جس میں سے ایشیائی ترقیاتی بنک 100ملین امریکی ڈالر بطور قرض فراہم کرے گی۔ سندھ حکومت کا حصہ 64.90ملین امریکی ڈالر ہے۔ 19.23ملین امریکی ڈالر DFIDگرانٹ کے طور پر فراہم کرے گی۔مراد علی شاہ نے کہا کہ سندھ حکومت ایشیائی ترقیاتی بنک کے تعاون سیسندھ پراونشل روڈ امپرومنٹ پراجیکٹ کی منصوبہ بندی کی ہے۔مجوزہ منصوبے کے تحت 328کلومیٹر طویل سڑکیں تعمیر کی جائیں گی۔مختلف اضلاع سے گذرنے والی سڑکوں کو ہائی ویز کے ساتھ منسلک کریں گی ۔ان منصوبوں میں ٹھل سے کندھ کوٹ 44کلومیٹر طویل سڑک کی تعمیر، 36 کلومیٹر سہارن پور سے رتو ڈیرو سڑک کی تعمیر، 64کلومیٹر خیبر براہ راستہ ٹنڈو آدم ۔ سانگھڑ سڑک کی تعمیر، 63کلومیٹر طویل سانگھڑ براہ راستہ سندھڑی میر پور خاص سڑک کی تعمیر، 66کلومیٹر ٹنڈو محمد خان بدین سڑک کی تعمیر، 55کلومیٹر طویل ڈگری سے نو کوٹ سڑک کی تعمیر،پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کے تحت مندرجہ ذیل منصوبوں کے معاہدے دستخط کرنے کے مراحل، 14ارب روپے کی لاگت سے گھوٹکی کو کندھ کوٹ سے ملانے کے لئے پل کی تعمیر ، 4.5ارب روپے کی لاگت سے بی آر ٹی عبد الستا ر ایدھی ( اورنج بی آر ٹی) اور گرین بی آر ٹی منصوبہ شامل ہیں ۔.وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ پاکستان پیپلز پارٹی نے اس ملک میں جمہوریت کی راہ ہموار کی۔ سیاسی منظر سے پاکستان پیپلز پارٹی کا صفایا کرنا آسان نہیں۔ پاکستان پیپلز پارٹی دوسروں کے لئے راہیں متعین کرنے والی جماعت ہے۔ ہماری قربانیوں کی بے مثال تاریخ ہے۔انہوں نے کہا کہ آصف علی زرداری کی سیاسی بصیرت اور مفاہمت کی پالیسی پر ان کے احسان مند ہیں۔ سیاست دانوں کو سیاست میں بقائے باہمی اور مثبت مقابلہ کا احساس ہو چکا ہے۔آصف علی زرداری نے عوام کے لئے ایک پلیٹ فارم مہیا کیا تاکہ وہ جمہوریت کے ثمرات سے مستفید ہو سکیں۔ جمہوریت جس کو ہم پھلتے پھولتے دیکھ رہے ہیں یہ ہمارے رہنماں اور کارکنوں کی قربانیوں کا نتیجہ ہے۔ ہمارے شہدا نے ملک کی بنیادوں کی اپنے خون سے آبیاری کی ہے۔ پیپلز پارٹی اپنے مثالی منشور کے باعث عوام میں مقبول ہے اور سیاسی تاریخ میں پہچان رکھتی ہے۔ہمارے دور اقتدار کے پانچ سالوں کے دوران تمام شعبوں صحت ، تعلیم، اور امن و امان برقرار رکھنا شامل ہے۔انہوں نے کہا کہ عوامی خدمات کی فراہمی کے معیار کو بہتر بنانا ہماری ترجیح رہا ہے ۔بلاول بھٹو زرداری بطور چیئرمین پیپلز پارٹی سیاست میں بھر پور حصہ لے رہے ہیں۔ چیئرمین پیپلز پارٹی اعلی قیادت میں لگن اور جدوجہد سے بھر پور جذبہ سے عوامی خدمت کے مشن کو بلند یوں تک پہنچانے کا عزم رکھتے ہیں ۔