منگل‬‮ ، 24 دسمبر‬‮ 2024 

زینب 4جنوری کو اغوا ہوئی 7جنوری کو لاش ملی، تین سے چار روز کہاں رکھاگیا؟دوران تفتیش سیریل کلر عمران کےایسے انکشافات کے آپ کے پیروں تلے سے زمین ہی نکل جائےگی

datetime 30  جنوری‬‮  2018
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)زینب سمیت قصور کی دیگر بچیوں کا سیریل کلر عمران قانون کی گرفت میں آچکا ہے جس کی گرفتاری کے بعد ہر روز نئے نئے انکشافات سامنے آرہے ہیں۔ زینب 4جنوری کو اپنے گھر سے سپارہ پڑھنے کیلئے خالہ کے گھر جا رہی تھی کہ راستے میں عمران نے اسے اغوا کر لیا۔ زینب کی لاش 7جنوری کو کچرے کے ایک ڈھیر سے ملی تھی۔برطانوی نشریاتی ادارے

بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق زینب کے والد امین انصاری نے تفتیشی افسر کے حوالے سے اپنے ایک بیان میں کہا تھاکہ زینب کو سیریل کلر عمران نے 4سے7جنوری تک اپنے گھرمیں چھپا کر رکھا جبکہ پولیس کا کہنا ہے کہ تفتیش کے دوران سیریل کلر عمران نے قبول کیا ہے کہ اس نے زینب کو 4جنوری کو ہی زیادتی کا نشانہ بنانے کے بعد قتل کر دیا تھا۔ زینب کے قاتل عمران کا کہنا ہے کہ وہ زیادتی کا نشانہ بنانے کیلئے زینب کو ایک زیر تعمیر گھر میں لے جانا چاہتا تھا مگر اس گھر کے سامنے ایک شخص کی موجودگی کی وجہ سے اس نے اپنا ارادہ تبدیل کیا اور زینب کو لے کر کچرے کے ڈھیر پر آگیا جہاں اس نے زیادتی کا نشانہ بنانے کے بعد زینب کو قتل کر کے اس کی لاش چھوڑ کر فرار ہو گیا۔ جے آئی ٹی کے رُکن، ڈی پی او وہاڑی عمر سعید نے بی بی سی بات کرتے ہوئے کہا کہ دو واقعاتی شواہد کی بنیاد پر انہیں ملزم کی بات پر یقین ہوا کہ بچی کو اُسی مقام یعنی کچرے کے ڈھیر پر ہی اس نے زیادتی کا نشانہ بنایا اور پھر وہیں قتل کیا۔عمر سعید کا کہنا تھا کہ بچی کے جسم پر موجود لباس اسی حالت میں تھا جس سے اندازہ لگایا جا سکتا تھا کہ ملزم قتل کرنے کے بعد عجلت میں وہاں سے فرار ہوا۔زینب کی لاش جس کوڑے کے ڈھیر سے ملی اس علاقے کو روڈ کوٹ کا علاقہ کہتے ہیں جس کا حدود اربع اور اس کے آس پاس موجود عمارتوں پر گوگل کے نقشے سے ایک نظربچی

کے جوتے جس جگہ پر تھے ان سے معلوم ہوتا تھا کہ وہ اس کے پاؤں سے اترے ہیں نہ کہ وہاں لا کر پھینکے گئے ہیں۔یاد رہے کہ پوسٹ مارٹم رپورٹ میں قصور ضلعی ہسپتال کی ڈاکٹر قرۃ العین عتیق نے لکھا ہے کہ بچی کی لاش دو سے تین دن پرانی معلوم ہوتی تھی۔تاہم پولیس کے تفتیش کاروں کے مطابق جہاں پورسٹ مارٹم رپورٹ سے یہ پتہ چلانے میں مدد ملی کہ لاش کو وہاں لا کر نہیں پھینکا گیا

وہیں اس سے یہ ابہام بھی پیدا ہوا کہ اگر قتل تین روز پہلے ہوا تو اغوا کے بعد بچی کو کہاں رکھا گیا اور کیوں؟اس وجہ سے پولیس کی ابتدائی تفتیش کا رخ شہر کے مختلف علاقے کی جانب رہا جس سے کم از کم دو دن کا قیمتی وقت ضائع ہوا۔تاہم یہ معمہ تب حل ہوا جب 13 جنوری کو فورنزک رپورٹ آنے کے بعد یہ ثابت ہوا کہ تمام آٹھ وارداتوں میں ایک ہی سیریل کلر ملوث ہے۔تاہم پورسٹ مارٹم رپورٹ

کے حوالے سے جب قصور ضلعی ہسپتال کے ایم ایس ڈاکٹر سے پوچھا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ رپورٹ بالکل درست تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ تھا کہ ایسی رپورٹ میں سو فیصد تعین ممکن نہیں ہوتا اور اس میں دس سے بیس فیصد گنجائش ہمیشہ رہتی ہے۔تاہم پولیس کے سینیئر اہلکار اس بات سے متفق نظر نہیں آئے اور ان کا یہی موقف تھا کہ اگر رپورٹ پہلے بار ہی جامع ہوتی تو تفتیش درست سمت میں

آگے بڑھتی۔زینب کی لاش آٹھ جنوری کو ملی اور وہ 4 جنوری کو لاپتہ ہوئی تھی۔ملزم نے دورانِ تفتیش پولیس کو بتایا کہ اس نے زینب کو چار جنوری کو ہی قتل کیا اور اس کی لاش کوڑے کے ڈھیر کے کنارے پر رہنے دی مگر چار دن کے دوران آس پاس موجود لوگوں کو اندازہ نہیں ہوا کہ ایک انسانی لاش یہاں پڑی ہے۔بی بی سی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ہمارے نامہ نگار اور پولیس کے مطابق کوڑے

کا یہ ڈھیر تیس سے چالیس کنال رقبے پر محیط ہے جس میں متعدد ٹیلا نما کوڑے کے بڑے بڑے ڈھیر موجود تھے جنہیں زینب کی لاش ملنے کے بعد انتظامیہ نے برابر کر دیا ہے۔کوڑے کے ڈھیر کے آس پاس آبادی کچھ زیادہ نہیں۔ جہاں سے زینب کی لاش ملی وہاں سے قریب ترین ایک گوالے کا گھر ہے جبکہ چند گھر وہاں سے کچھ فاصلے پر واقع ہیں تاہم اسی مقام کے قریب چند گوالے تقریباً روزانہ

اپنی بھینسوں کو چارا ڈالنے کی غرض سے لاتے ہیں۔ ان میں سے ایک نوجوان لڑکے نے بی بی سی کو بتایا کہ انہوں نے ابتدائی چار دنوں میں نہ ہی بچی کی لاش دیکھی نہ ہی ایسی کوئی سرگرمی دیکھی۔تاہم آٹھ جنوری کو ایک گوالے ہی کی نشاندہی پر پولیس کو کچرے کے ڈھیر پر دیوار کے قریب سے لاش ملی۔پولیس کے بیانات کے مطابق زینب کو 4 جنوری کی رات ہی ریپ کے بعد قتل کر دیا گیا

جس کو پوسٹ مارٹم کی رپورٹ بھی تقریباً ثابت کرتی ہے۔ بچی کی لاش مسخ ضرور ہوئی تاہم موسم سرد ہونے کی وجہ سے اس پر زیادہ اثر نہیں پڑا۔لیکن اگر زینب کے والد کی بات پر چلا جائے تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا ملزم نے چار سے 7 جنوری یا شاید آٹھ جنوری تک زینب کو گھر پر رکھا؟ڈی پی او عمر سعید کے مطابق بچی کی لاش زیادہ مسخ ہونے سے اس لیے بچ گئی کیونکہ لاش براہِ راست

سورج کی روشنی میں نہیں بلکہ ایک دیوار کی اوٹ میں سائے میں پڑی رہی۔دوسرا سردیوں کے موسم کی وجہ سے درجہ حرارت اتنا زیادہ نہیں تھا کہ اس سے لاش پر برے اثرات نمایاں ہوتے لیکن اگر یہ واقعہ گرمیوں میں ہوتا تو حالات مختلف ہوتے۔

موضوعات:



کالم



طفیلی پودے‘ یتیم کیڑے


وہ 965ء میں پیدا ہوا‘ بصرہ علم اور ادب کا گہوارہ…

پاور آف ٹنگ

نیو یارک کی 33 ویں سٹریٹ پر چلتے چلتے مجھے ایک…

فری کوچنگ سنٹر

وہ مجھے باہر تک چھوڑنے آیا اور رخصت کرنے سے پہلے…

ہندوستان کا ایک پھیرا لگوا دیں

شاہ جہاں چوتھا مغل بادشاہ تھا‘ ہندوستان کی تاریخ…

شام میں کیا ہو رہا ہے؟

شام میں بشار الاسد کی حکومت کیوں ختم ہوئی؟ اس…

چھوٹی چھوٹی باتیں

اسلام آباد کے سیکٹر ایف ٹین میں فلیٹس کا ایک ٹاور…

26نومبر کی رات کیا ہوا؟

جنڈولہ ضلع ٹانک کی تحصیل ہے‘ 2007ء میں طالبان نے…

بے چارہ گنڈا پور

علی امین گنڈا پور کے ساتھ وہی سلوک ہو رہا ہے جو…

پیلا رنگ

ہم کمرے میں بیس لوگ تھے اور ہم سب حالات کا رونا…

ایک ہی بار

میں اسلام آباد میں ڈی چوک سے تین کلومیٹر کے فاصلے…

شیطان کے ایجنٹ

’’شادی کے 32 سال بعد ہم میاں بیوی کا پہلا جھگڑا…