لاہور ( این این آئی ) قومی اسمبلی سے منظور ہونے والے سائبر کرائم ایکٹ کو لاہور ہائی کورٹ میں چیلنج کر دیا گیا ۔جمعے کو پاکستان عوامی تحریک کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل اشتیاق چودھری ایڈووکیٹ نے ہائیکورٹ میں درخواست دائر کی۔ درخواست گزار نے اعتراض اٹھایا کہ سائبر کرائم بل کی شق نمبر 10،18اور 32آئین میں دیئے گئے بنیادی حقوق اور آزادی رائے کے حقوق کے خلاف ہیں۔ریاست ایسا کوئی قانون نہیں بناسکتی جو بنیادی حقوق کیخلاف ہو۔درخواست میں خدشہ ظاہر کیا گیا ہے کہ سائبر کرائم کا قانون سیاسی مخالفین کے خلاف استعمال کیا جا سکتا ہے۔اس میں یہ اعتراض بھی اٹھایا گیا کہ ایکٹ میں سائبر دہشتگردی کی ایک شق شامل کی گئی ہے جس کے بعد سائبر کرائم ایکٹ انسداد دہشتگردی ایکٹ 1997ء کے مساوی قانون بن گیا ہے۔جبکہ ملک میں ایک وقت میں دو مساوی قوانین کا کوئی جواز اور گنجائش نہیں ہے۔اس درخواست میں یہ نشاندہی بھی کی گئی کہ سائبر کرائم ایکٹ کی شق 18کی وجہ سے ہتک عزت کا ایک نیا قانون متعارف کرا دیا گیا ہے اس طرح ایک وقت میں دو قوانین ایک دو سے متصادم ہوجائیں گے۔درخواست میں کہا گیا کہ اس قانون میں ایف آئی اے کو لامحدود اختیارات دے دیئے گئے جس کے تحت وفاقی تحقیقاتی ادارہ بغیر تحقیق کیے کسی بھی شہری کے موبائل اور کمپیوٹر کا ڈیٹاحاصل کر سکتاہے۔درخواست میں استدعا کی گئی کہ سائبر کرائم ایکٹ میں شامل بنیادی حقوق سے متصادم شقوں کو کالعدم قرار دیا جائے۔خیال رہے کہ سائبر کرائم بل میں شامل دسویں شق سائبر دہشت گردی، 18ویں کسی شخص کے عزت و وقار کے خلاف جرائم اور32ویں مجاز افسر کے اختیارات کے بارے میں ہے۔