کراچی (نیوز ڈیسک) اندرون سندھ میں پیپلز پارٹی مخالف محاذ اب تک کسی بھی جگہ متبادل فراہم کرنے کے قابل نہیں ہوسکا ہے اور نہ ہی سندھی قوم پرست جماعتیں کسی بڑے چیلنج کا باعث ہیں۔ اس لئے “منصوبہ ساز” یا اسکرپٹ لکھنے والے ہر ممکن حد تک پی پی پی کے حجم میں کمی کی کوشش کر رہے ہیں، اور چاہتے ہیں کہ اینٹی ایم کیو ایم محاذ شہری سندھ میں ابھر کر سامنے آئے۔معروف صحافی اور تجزیہ نگار مظہر عباس نے اپنے تجزیئے میں کہا ہے کہ متحدہ سے گزشتہ چند سالوں میں کیا غلطیاں ہوئیں اور ان کے پاس کیا آپشنز بچے ہیں؟ الطاف حسین اور رابطہ کمیٹی کے دو اہم فیصلے جو کارکن کی سطح تک پارٹی کی تنظیم کے اندر سنگین ناراضگی کی وجہ بنے. (1) ذوالفقار مرزا کے ایم کیو ایم پر حملے کے بعد پیپلز پارٹی سے دوبارہ اتحاد کا فیصلہ کیا اور (2) عامر خان کو دی گئی معافی اور تقریبا 12 سال گزر جانے کے بعد دوبارہ پارٹی میں شامل کرنا۔ عامر کسی زمانے میں پارٹی میں اہم شخصیت کے طور پر جانے جاتے تھے۔ پھر انہوں نے آفاق کے ساتھ مل کر بغاوت کی۔ بعدازاں جیل میں آفاق ساتھ اختلافات کے بعد وہ متحدہ میں واپس آگئے۔ ذرائع نے کہا کہ کچھ اہم پارٹی رہنماؤں بشمول گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد جو اس وقت الطاف حسین کے قریب تھے، انہوں نے عامر کی واپسی کی راہ ہموار کی۔ ابتدائی طور پر، کچھ مذاکرات آفاق کے ساتھ بھی ہوئے، لیکن کامیاب نہیں ہوسکے۔ عامر کی واپسی کیلئے الطاف حسین کی منظوری میں چند ماہ لگ گئے۔ وہ ضمانت پر رہا ہوئے اور ایک انتہائی جذباتی جنرل ورکرز اجلاس میں عامر خان نے ایم کیو ایم کے کارکنوں بشمول ان خاندانوں سے معافی مانگ لی جن کے پیارے اندرونی جنگ میں مارے گئے تھے۔ اس میٹنگ سے پہلے انیس قائم خانی کی قیادت میں ایک مضبوط گروپ نے اس اقدام کی مخالفت کی، لیکن آخر میں اس پر اتفاق ہوا کہ عامر کو پارٹی میں کوئی بھی بڑی پوزیشن نہیں دی جائے گی. الطاف حسین بھی عامر خان کی کوالٹی کو جانتے ہیں، انہوں نے تحفظات کے باوجود عامر کو رابطہ کمیٹی میں شامل کرلیا۔ پیپلز پارٹی کی حکومت کے دوران، متحدہ عملی طور پر گروپ میں تقسیم ہوگئی جب ایک حیرت ناک اقدام میں ایم کیو ایم کی قیادت نے پی پی پی کے ساتھ مذاکرات کا آغاز کیا اور حکومت میں شمولیت کا فیصلہ کیا۔ چونکہ ذوالفقار مرزا کو ہٹانے کا مطالبہ قبول کرلیا گیا تھا، اس لیے متحدہ کو سندھ حکومت میں شامل ہونے کے لئے کہا گیا۔ MQM کے سخت گیر اس کے حق میں نہیں تھے اور سختی سے اس اقدام کی مخالفت کی۔ پی ٹی آئی کو متحدہ کے مضبوط حلقوں سے کیوں ووٹ ملے، اس کی وجہ نہ تو عمران خان سے محبت تھی اور نہ ہی وہ متحدہ کی ناقص کارکردگی کا رد عمل تھا۔ بلکہ وہ پارٹی کے کچھ فیصلوں کے خلاف بغاوت تھی. اسی طرح، 19 مئی 2013 کے جنرل ورکرز اجلاس میں بھی مبینہ طور پر پہلے سے منصوبہ بندی ہوئی تھی اور سب کچھ اچانک نہیں تھا۔ 2013، میں ایم کیو ایم، اندرونی جھٹکے سے باہر نکل آئی لیکن اگر الطاف حسین اپنی تقاریر میں بار بار کی تکرار نہ کرتے اور “کراچی ٹارگٹڈ ایکشن،” سول اور فوجی تعلقات کو غلط نہ سمجھتے، تو حالات اس نہج تک نہ پہنچتے. اپنی طرف سے پارٹی نے تمام مشکلات کے خلاف ایک قابل ذکر کارکردگی دکھائی۔ وہ نہ صرف، 2013 میں بلکہ گزشتہ دو سالوں میں تمام انتخابات میں اہم نشستوں کو برقرار رکھنے میں کامیاب ہوئی۔ اسٹیبلشمنٹ یا حکومت سندھ ایک بہت بڑی غلطی کا ارتکاب کریں گی، اگر انہوں نے ایم کیو ایم کے میئر کی راہ مسدود کی یا مقامی حکومت کے اختیارات کم کیے۔ جس طرح مسلم لیگ ایم کیو ایم کی متفقہ ، “شکایت ازالہ کمیٹی،” کو نطر انداز کیا گیا تھا. ایم کیو ایم کے لئے بہترین ا?پشن یہ ہے کہ خود کو دوبارہ متحد کرے اور اپنی غلطیوں اور حماقتوں سے سبق سیکھے۔ الطاف حسین، لازما اپنے ممکنہ جانشین کا تعین کریں یا پارٹی کی سپریم کونسل کو اختیار دے دیں۔ پارٹی میں اب بھی اچھے چہرے موجود ہیں۔ “متبادل سیاست” ایک نیا اسکرپٹ ہے، لیکن اسے دوبارہ تحریر کرنے کا الزام ان جماعتوں کے بھی سر ہے جنہوں نے بری سیاست اور خراب حکمرانی کے ذریعے اس کا موقع فراہم کیا. اسی طرح، اس نے دوسروں کو موقع دیا جن میں اندرونی گروپس بھی ہیں اور وہ بھی جو عوام کا اعتماد کھو چکے ہیں۔