بدھ‬‮ ، 18 جون‬‮ 2025 

سانحہ چارسدہ‘حملہ آورخودکش جیکٹس کے بغیر تھے

datetime 22  جنوری‬‮  2016
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

پشاور(نیوز ڈیسک)خیبرپختونخوا کے ضلع چارسدہ کی باچا خان یونیورسٹی پر حملہ کرنے والے دہشت گردوں نے خود کش جیکٹس نہیں پہن رکھی تھیں اور صوبے میں ہونے والے گذشتہ حملوں کے برعکس یہ واحد واقعہ معلوم ہوتا ہے، جب دہشت گرد خود کش جیکٹس کے بغیر تھے۔سیکیورٹی عہدیداران کا کہنا ہے کہ وہ اس حوالے سے جاننے میں تجسس رکھتے ہیں کہ دہشت گردوں نے یونیورسٹی پر حملے کے وقت خود کش جیکٹس کیوں نہیں پہنیں۔ایک سینیئر سیکیورٹی عہدیدار نے ڈان کو فون پر بتایا کہ کسی حملہ آور نے خودکش جیکٹ نہیں پہنی تھی اور نہ ہی ان کے پاس کھانے کا سامان اور پانی کی بوتلیں تھیں۔مذکورہ عہدیدار نے بتایا، ‘حملہ آوروں کے پاس ٹافیاں یا بسکٹس بھی نہیں تھے۔ان کا کہنا تھا کہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ حملہ آوروں کا طلبہ اور اسٹاف کو یرغمال بنا کر دیر تک لڑنے کاارادہ نہیں تھا، جبکہ ماضی کے دہشت گردی کے حملوں کے برعکس حملہ آور بھاری ہتھیاروں سے بھی مسلح نہیں تھے۔ ا±ن کے پاس صرف اے کے 47 رائفلز اور صرف 8 دستی بم تھے۔عہدیدار کے مطابق چاروں حملہ آوروں کے پاس اضافی گولیوں کے صرف 2 میگزین تھے،جبکہ ہلکے ہتھاروں کا استعمال اس سے پہلے کسی دہشت گردی کے حملے کے دوران نہیں ہوا۔ایک اور سیکیورٹی عہدیدار کے مطابق خود کش جیکٹس اوربھاری ہتھیاروں کی غیر موجودگی سے اندازہ ہوتا ہے کہ دہشت گرد حملے کے بعد فرار ہونے کا پروگرام رکھتے تھے، لیکن یونیورسٹی کے محافظوں اور پلوسا گاو¿ں کے لوگوں کی مزاحمت کی وجہ سے حملہ آوروں کامنصوبہ ناکام ہوگیا۔انھوں نے بتایا کہ پلوسا گاو¿ں کے لوگوں کو جو کچھ بھی ملا وہ اسے اٹھا کر یونیورسٹی کے دفاع کے لیے آگئے، اس طرح کا ردعمل پہلے کبھی نہیں دیکھا گیا۔مذکورہ عہدیدار کے مطابق گاو¿ں کے لوگوں کے بڑی تعداد میں یونیورسٹی کے باہر جمع ہونے سے دہشت گردوں کے فرار ہونے کا منصوبہ بھی ناکام ہوگیا۔ان کا کہنا تھا کہ گاو¿ں میں سب لوگ ایک دوسرے کو جانتے تھے اور حملے کے بعد گاو¿ں میں واپس جانا خود کو موت کے منہ میں ڈالنے کے مترادف ہوتا، یہی وجہ ہے کہ حملہ آوروں نے وہیں رہنے اور لڑائی میں مارے جانے کو ترجیح دی۔مذکورہ عہدیدار کے مطابق گاو¿ں کے لوگوں کا یونیورسٹی کے طلبہ کی مدد کو آنا ایک مثبت اشارہ ہے اور اگر یہی واقعہ کسی بڑے شہر میں ہوا ہوتا تو دہشت گرد فرار ہوسکتے تھے.سیکیورٹی عہدیدار کے مطابق حملہ آور مناسب تربیت یافتہ بھی نہیں تھے جو اپنے منصوبے پر مکمل عمل درآمد کرسکتے، یہی وجہ ہے کہ حملے میں جانی نقصان کم ہوا۔انھوں نے بتایا کہ حملہ آور صبح پونے 8 بجے کے قریب یونیورسٹی میں داخل ہونے میں کامیاب ہوئے اور آدھے گھنٹے کے اندر وہ یونیورسٹی کی حدود میں ایک بڑا نقصان کرسکتے تھے.مذکورہ عہدیدار کے مطابق حملہ آور کنفیوڑ اور مکمل طور پر تربیت یافتہ نہیں تھے اور نہ ہی انھوں نے اپنے ہدف کی احتیاط سے جاسوسی کی تھی.ان کا کہنا تھا کہ بظاہر لگتا ہے کہ حملہ آور صرف یہ پیغام دینا چاہتے تھے کہ وہ اب بھی اپنے ہدف کو نشانہ بنانے کے قابل ہیں۔سیکیورٹی عہدیدار نے بتایا کہ حملہ آوروں کے پاس 2 موبائل فونز کے ساتھ ایک کاغذ کے ٹکڑے پر لکھے گئے 2 فون نمبرز بھی ملے، تاہم انھوں نے یہ نہیں بتایا کہ یہ نمبر مقامی تھے یا غیر ملکی۔

آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں


کالم



دیوار چین سے


میں دیوار چین پر دوسری مرتبہ آیا‘ 2006ء میں پہلی…

شیان میں آخری دن

شیان کی فصیل (سٹی وال) عالمی ورثے میں شامل نہیں…

شیان کی قدیم مسجد

ہوکنگ پیلس چینی سٹائل کی عمارتوں کا وسیع کمپلیکس…

2200سال بعد

شیان بیجنگ سے ایک ہزار اسی کلومیٹر کے فاصلے پر…

ٹیرا کوٹا واریئرز

اس کا نام چن شی ہونگ تھا اوروہ تیرہ سال کی عمر…

گردش اور دھبے

وہ گائوں میں وصولی کیلئے آیا تھا‘ اس کی کمپنی…

حقیقتیں

پرورش ماں نے آٹھ بچے پال پوس کر جوان کئے لیکن…

نوے فیصد

’’تھینک یو گاڈ‘‘ سرگوشی آواز میں تبدیل ہو گئی…

گوٹ مِلک

’’تم مزید چارسو روپے ڈال کر پوری بکری خرید سکتے…

نیوٹن

’’میں جاننا چاہتا تھا‘ میں اصل میں کون ہوں‘…

غزوہ ہند

بھارت نریندر مودی کے تکبر کی بہت سزا بھگت رہا…