لاہور(نیوزڈیسک) لاہور میں رونما ہونے والے سانحہ ماڈل ٹاون کو ایک برس مکمل گیا۔ 17 جون 2014 کو لاہور کے علاقے ماڈل ٹاون میں تحریک منہاج القران کے مرکزی سیکریٹریٹ اور پاکستانی عوامی تحریک (پی اے ٹی) کے سربراہ ڈاکٹر طاہر القادری کی رہائش گاہ کے سامنے قائم تجاوزات کو ختم کرنے کے لیے آپریشن کیا گیا تھا، مگر پی اے ٹی کے کارکنوں کی مزاحمت اور پولیس آپریشن کے باعث 14 افراد ہلاک ہو گئے تھے جبکہ 90 کے قریب زخمی ہوئے تھے۔جبکہ ڈاکٹر طاہر القادری کے دھرنے کے نتیجے میں ماڈل ٹاون واقعہ کی ایف آئی آر درج ہوئی۔ایف آئی آر میں وزیراعظم نواز شریف ، وزیراعلی پنجاب شہباز شریف اور متعدد وزراء کو نامزد کیا گیا۔حکومت نے جوڈیشل کمیشن تشکیل دیا لیکن رپورٹ نقص امن کے خدشے کے پیش نظر منظر عام پر نہ آ سکی۔عوامی تحریک نے وزیراعلی پنجاب کی بنائی جوائنٹ انوسٹی گیشن ٹیم کا بائیکاٹ کرتے ہوئے اسے ماننے سے انکارکر دیا۔جے آئی ٹی نے چند پولیس والوں کو قصور وار ٹھہراتے ہوئے ایف آئی آر میں نامزد تمام افراد کو بے گناہ قرار دیا گیا۔گزشتہ برس 13 نومبر کو پنجاب حکومت کی ہدایت پر 5 رکنی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جوائنٹ انوسٹی گیشن ٹیم ) تشکیل دی گئی تھی۔جے آئی ٹی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ جس وقت واقعہ پیش آیا ڈی آئی جی عبدالجبار موقع پر موجود نہیں تھے۔ واقعے کے دوران کانسٹیبل کی ہلاکت کی اطلاع ملی تو ا±س وقت کے ایس پی سیکیورٹی علی سلمان نے اپنے ماتحتوں کو فائرنگ کاحکم دیا جس سے پی اے ٹی کے کچھ کارکن ہلاک ہوئے۔سانحے میں ذمہ دار ٹھہرائے جانے والے سابق ایس پی سیکیورٹی علی سلمان بیرون ملک پرواز کرچکے ہیں جبکہ ایک انسپکٹر عامر سلیم سمیت پانچ پولیس اہلکار جیل میں قید ہیں۔رپورٹ کے مطابق مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کے تمام ممبران نے واقعے کے مقدمے میں نامزد وزیر اعلیٰ پنجاب اور سابق وزیر قانون کے خلاف موجود الزامات کو مسترد کرتے ہوئے انہیں بے گناہ قرار دیا۔جس پرعوامی تحریک نے مطالبہ کیاتھاکہ ایک نئی ،غیر جانبدار جے آئی ٹی تشکیل دی جائے۔چونکہ پولیس ماڈل ٹاو¿ن سانحے میں ملوث تھی، لہذا اسے جے آئی ٹی کا حصہ نہیں بنانا چاہیے۔دھرنے کے دوران ہم سے معاہدہ کیا گیا تھا کہ باہمی معاہدے کے تحت جے آئی ٹی بنائی جائے گی، لیکن جے آئی ٹی بنانے سے پہلے ہمارے تحفظات نہیں سنے گئے۔ابھی تک اس سانحہ کے ذمہ داروں کاتعین نہیں کیا جاسکاہے کہ اس سانحہ کاکون ذمہ دارہے ۔