کراچی(نیوز ڈیسک) سندھ حکومت اس وقت شدید مشکلات کا شکار ہے کیونکہ رینجرز اور نیب کی تحقیقات سے معلوم ہوا ہے کہ کچھ اہم صوبائی وزیر اور بیورو کریسی کے ارکان کی ایک بڑی تعداد اور پولیس والے کرپشن اور اختیارات کے ناجائز استعمال میں ملوث ہیں۔ اگرچہ کراچی مافیا کی مدد کرنے والے دو درجن بااثر افراد کے خلاف کارروائی کے معاملے میں رینجرز زیادہ تر انحصار صوبائی حکومت پر کررہی ہے لیکن نیب تیزی کے ساتھ پہلے سے ہی اہم وزیروں اور بااثربیورو کریٹس کے خلاف ان کی کرپشن اور اختیارات کے ناجائز استعمال کے ثبوت جمع کررہی ہے۔نیب کے ہیڈ کوارٹرز کی جانب حال ہی میں پیپلز پارٹی کے پیر مظہر الحق اور سید علی مردان شاہ کے خلاف ان کی جان سے اختیارات کے ناجائز استعمال اور کرپشن کی تحقیقات کی اجازت دی گئی تھی، اسی وقت کچھ اہم صوبائی بیورو کریٹس نے نیب کراچی کے سامنے راز اگلنا شروع کردئیے ہیں جس کی وجہ سے جلد ہی پیپلزپارٹی کے کچھ مزید وزیروں کیلئے مشکلات بڑھنے کا امکان ہے۔
باخبر ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ سندھ کے سیکرٹری اطلاعات ذوالفقار شالوانی، جن کے خلاف کچھ ہی دن قبل وارنٹ جاری ہوئے تھے لیکن انہوں نے عدالت سے حفاظتی ضمانت حاصل کرلی تھی، جمعہ کونیب کراچی میں پیش ہوئے۔ تفتیش کے دوران، سیکرٹری اطلاعات نے 200 ملین روپے کی مبینہ کرپشن کا ملبہ وزیراعلیٰ سندھ قائم علی شاہ کی کابینہ کے ایک بااثر اور شعلہ بیاں وزیر پر ڈالنے کی کوشش کی۔ اس وزیر کو شامل تفتیش کرنے کیلئے نیب کو ٹھوس ثبوتوں کی ضرورت ہے۔سندھ حکومت کے کچھ اہم وزیروں کے علاوہ، نیب کی کرپشن کے خلاف تحقیقات میں صوبے کے بیورو کریٹس کی ایک بڑی تعداد بھی شامل ہے۔ ایسے کئی اہم بیورو کریٹس،صوبائی سیکرٹریز حتیٰ کہ اعلیٰ عہدوں پر فائز بابو بھی ہیں جن کیے خلاف نیب زبردست کرپشن کے ثبوت جمع کرنے میں مصروف ہے۔زمینوں کے سکینڈل، جس میں 530 ایکڑ زمین کا فراڈ بھی شامل ہے، میں بورڈ آف ریونیو کے کچھ اہم عہدیدار اور سویلین انتظامیہ کی کچھ اعلیٰ شخصیات نے اہم کردار ادا کیا ہے۔ لینڈ یوٹیلائزیشن ڈیپارٹمنٹ اور کراچی سول ایڈمنسٹریشن کے کچھ سینئر عہدیداروں کو بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ بیورو کریسی کے کچھ ارکان نے کرپشن کے حوالے سے نیب کے ساتھ دیگر سیکیورٹی ایجنسیوں کے ساتھ بھی معلومات کا تبادلہ کرنا شروع کردیا ہے۔جمعہ کی شام نیب سندھ نے حیدر آباد ڈویلپمنٹ اتھارٹی (ایچ ڈی اے) کے سابق ڈائریکٹر جنرل غلام محمد قائم خانی (جو فی الوقت ایچ ڈی اے کے چیف اکاو¿نٹس افسر) کو حیدر آباد کوآپریٹو ہاو¿سنگ سوسائٹی کے سکینڈل کی وجہ سے گرفتارکرلیا۔ 2014ئ میں جب وہ ڈی جی تھے اس وقت انہوں نے مبینہ طور پر 19 ایکڑ زمین پر حیدر آباد ریلوے کو آپریٹو سوسائٹی تعمیر کرنے کی اجازت دی۔ان پر الزام ہے کہ انہوں نے فراڈ کرکے اس پروجیکٹ کا ماسٹر پلان منظور کیا جس میں ریلوے کی 19ایکڑ زمین کے ساتھ تعلقہ میونسپل ایسوسی ایشن (ٹی ایم اے) لطیف آباد کی ڈیڑھ ارب روپے مالیت کی پانچ ایکڑ زمین بھی شامل کرلی گئی اور اس طرح مجموعی طور پر 24 ایکڑ زمین پر یہ سوسائٹی تعمیر کرنے کی اجازت دی۔نیب کے علاوہ، رینجرز نے بھی سندھ میں سرگرم مافیا کے خلاف مہم شروع کردی ہے۔ مقامی اخبار دی نیوز کے مطابق رینجرز نے وزیراعلیٰ سندھ قائم علی شاہ کو تقریباً 24 سیاستدانوں، بیورو کریسی کے ارکان، پولیس افسران اور دیگر کی فہرست مہیا کی ہے جو بالواسطہ یا پھر بلا واسطہ طور پر ”مالی دہشت گردی“ میں ملوث ہیں اور یہی دہشت گردی کراچی اور سندھ میں جرائم کے پھیلاو¿ کی وجوہات میں سے ایک اہم پہلو ہے۔چونکہ نیب اور رینجرز کے آپریشن سے پیپلزپارٹی کے بااثر وزیروں اور رہنماو¿ں کو نقصان ہوگا، پیپلزپارٹی کے کچھ رہنماو¿ں سے کہا گیا ہے کہ وہ نیب، رینجرز حتیٰ کہ وفاقی حکومت کے خلاف بیانات جاری کریں۔ کہا جاتا ہے کہ پیپلزپارٹی کے سیاسی ردعمل میں آنے والے دنوں میں مزید اضافہ ہوگا۔
سندھ کے بااثر بیوروکریٹس نے نیب کے سامنے راز اگلنا شروع کردئیے
13
جون 2015
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں